جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق حقانی نے گزشتہ دنوں جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں پارٹی کی مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں پر زور دیا ہے کہ وہ پارٹی کی تنظیم نو پرتوجہ دیں اور پارٹی کو نچلی سطح پر متحرک کریں تاکہ ملک میں درپیش چیلنجوں کا مناسب انداز میں مقابلہ کیا جاسکے۔ جے یو آئی(س) کے سربراہ نے مذہبی سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی سیاست ملک کی خدمت نہیں کررہی ہے بلکہ ان کا ایجنڈا ذاتی مفادات ہیں اس لئے ہمیں ایک نئے مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی طرف جانا ہوگا۔ جمعیت (س) کی جنرل کونسل کے حالیہ اجلاس میں کئے گئے فیصلے خاص کر مذہبی جماعتوں کا کوئی نیاسیاسی اتحاد بنانے کی بات ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایک جانب ملک کی قابل ذکر سیاسی جماعتیں واضح طور پر دو گروپوں میں بٹی نظر آتی ہیں جن میں ایک گروپ برسراقتدارجماعتوں پر مشتمل ہے جن کی قیادت پاکستان تحریک انصاف کر رہی ہے جب کہ اس اتحاد میں ایم کیوایم،جی ڈی اے،بی اے پی اور پاکستان مسلم لیگ(ق) قابل ذکر جماعتیں ہیں دوسری جانب اپوزیشن کا گیارہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی پارٹی ،مسلم لیگ (ن) ‘جمعیت(ف)، اے این پی،بی این پی( مینگل)،پختونخو ا ملی عوامی پارٹی، این پی( بزنجو)اور قومی وطن پارٹی پر مشتمل ہے۔جب کہ تیسری جانب جماعت اسلامی ملک کی وہ واحد قابل ذکر جماعت ہے جوسندھ،خیبرپختونخوااور قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ میں بھی نمائندگی رکھنے کے باوجود نہ تو حکومتی اتحاد کا حصہ ہے اور نہ ہی وہ پی ڈی ایم میں شامل ہے۔لہٰذا اس تناظر میں جمعیت (س) کا کافی عرصے بعد فعال ہونا اور ملک میں جاری سیاسی بحران کے دوران ایک نئے سیاسی اتحاد کی ضرورت پر زور دینے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جمعیت(س) پی ڈی ایم میں شامل روایتی سیاسی جماعتوں اور برسراقتدارحکومتی اتحاد کے درمیان موجود سیاسی خلاءجسے پر کرنے کےلئے جماعت اسلامی جو تن تنہا محو پرواز ہے جمعیت(س) بھی ان ہی لائنز پرنہ صرف اپنی سیاست آگے بڑھانے کی خواہشمند نظر آتی ہے بلکہ وہ اس ضمن میں ماضی کی روایات کے مطابق پی ڈی ایم اور حکومتی اتحاد سے باہر کی ہم خیال جماعتوں کو ساتھ ملا کر بطور ایک تیسری سیاسی قوت کوئی نیا سیاسی اتحاد بنانے کےلئے پرتول رہی ہے۔اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ جمعیت(س) ماضی کے اتحادوں کے قیام میں نمایاں کردارادا کرتی رہی ہے اور اس ضمن میں مولانا سمیع الحق مرحوم کو ملکی سیاست میں ایک خاص اور نمایاں مقام حاصل تھا جس کی نمایاں مثال جہاں آئی جے آئی اور متحدہ مجلس عمل کے اتحاد تھے وہاں دفاع افغانستان وپاکستان کونسل، ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ دینی محاذ جیسے اتحادوں کے قیام میں بھی جمعیت(س) کا فعال کردار رہا ہے یادرہے کہ جمعیت(س)1988میں اس وقت پیپلز پارٹی کے مقابلے میں قائم ہونے والے انتخابی اتحاد اسلامی جمہوری اتحادمیں شامل مسلم لیگ(ن) اور جماعت اسلامی کے بعد تیسری بڑی اور موثر جماعت تھی جس نے بعد ازاں 1990کے انتخابات میں میاں نواز شریف کی پہلی وزارت عظمیٰ کےلئے راہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار اداکیاتھا۔اسی طرح جب یہ اتحاد بعد ازاں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکا تھا تو محترم قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ مولا نا سمیع الحق مذہبی جماعتوں اور آئی جے آئی کی جماعتوں کی جانب سے میاں نواز شریف کے ایک بڑے ناقد کے طور پر سامنے آئے تھے ۔1993کے عام انتخابات جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے پلیٹ فارم سے لڑاتھا جب کہ جمعیت علمائے اسلام (س) نے یہ انتخابات چھ مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد متحدہ دینی محاذ کا پلیٹ فارم تشکیل دے کرلڑ اتھا۔ پاکستان کی مروجہ سیاست میں مذہبی ووٹ بینک کی اہمیت کاتو ہر کوئی معترف ہے لیکن دوسری جانب سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اسلامک فرنٹ اور متحدہ دینی محاذ جیسے مذہبی سیاسی اتحاد کبھی بھی روایتی کھلاڑیوں کے ووٹ بینک پر کوئی بڑاڈینٹ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں جس کی مثال ان دونوں اتحادوں کے انتخابی نتائج کو قراردیا جاتا ہے۔اصل میں ہمارے ہاں زیادہ تر انتخابی اتحاد مذہبی جماعتیں تشکیل دیتی رہی ہیں جس کا مقصد لبرل اور ترقی پسند قوتوں کو اقتدار میں آنے سے روکناہوتا ہے شایدیہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں اپنا یہ عارضی اور وقتی مقصد تو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن یہ جماعتیں کوئی بڑ ابریک تھرو کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ مبصرین کا دعویٰ ہے کہ جمعیت(س)کی حالیہ اچانک فعالیت کے پیچھے پی ڈی ایم کے حکومت مخالف تحریک کو کاﺅنٹر کرنے کےلئے ایک نیا سیاسی انتخاب تشکیل دینے کی خواہش کارفرما نظر آتی ہے۔ اس طرح سیاسی گہما گہمی کا سلسلہ ابھی چلتا نظر آرہا ہے اور یہی جمہوری معاشروں میں ہوتا بھی ہے کہ حزب اختلاف کی موجودگی میں ایک طرح سے توازن قائم رہتا ہے اور حکومت پر ایک طرح سے معاملات کو درست رکھنے کے لئے دباﺅ برقرار رہتا ہے۔