صدر ٹرمپ کی بے بنیاد الزام تراشی، انتخاب کا نتیجہ ماننے سے انکار، روایت شکنی، سرکاری اہلکاروں پر دباو¿ ڈالنے، صدارتی انتخاب کے نتائج تبدیل کرنے کی سازشوں، مسلسل جھوٹ بولنے، اپنے حامیوں کو کھلم کھلا تشدد پر اُکسانے اور ان کے حامیوں کی پرتشدد کاروائیوں کو خاموشی سے برداشت کیے جانے کا یہی انجام ہونا تھا۔صدر ٹرمپ نے ماضی کی روایات سے یکسر انحراف کرتے ہوئے الیکشن میں ہار کو ماننے سے انکار کیا اور سیاسی مخالفت کو نفرت میں بدل دیا ہے جب اختلاف رائے کی جگہ ہلڑبازی شروع ہو جائے اور سیاسی رہنما نفرت کو پالیسی بنالیں تو پھر قانون شکنی لازمی نتیجہ ہوتی ہے۔امریکہ میں فسطائیت پسندوں کی دلجوئی سے حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے چھ جنوری کو واشنگٹن میں کیپٹل ہل پر حملہ کردیا جب وہاں امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹرز صدارتی انتخاب کے ووٹوں کی تصدیق و توثیق کی رسمی کارروائی کر رہے تھے۔اجلاس معطل ہوا مگر بعد میں امریکی کانگریس نے صدارتی انتخاب 2020 کے نتائج کی توثیق کر دی۔ بائیڈن کی کامیابی کا اعلان نائب صدر مائیک پنس نے کیا جو اس مشترکہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ انھوں نے اس سے پہلے صدر ٹرمپ کی اس درخواست کو رد کر دیا تھا کہ وہ جو بائیڈن کی جیت کی تصدیق رکوا دیں۔جمعرات کو امریکہ کے محکمہ انصاف نے کہا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے خلاف بدھ کو کیپٹل ہل میں مارچ کرنے والے، افسران کو مغلوب کرنے والے اور کانگریس پر دھاوا بولنے والے ہجوم کو بھڑکانے میں ان کے ممکنہ کردار کے الزامات کی تحقیقات سے منہ نہیں موڑے گا۔اگرچہ اس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاو¿س کے باہر ’امریکہ بچاو¿ ریلی‘ میں شامل اپنے حامیوں کو یہ کہتے ہوئے کیپٹل ہل کا رخ کرنے کا حکم دیا تھا کہ "آپ کمزوری نہ دکھائیں، ہمارے ملک نے بہت سہہ لیا، اب مزید سہا نہیں جائے گا‘ اور پچھلے روز انہوں نے شدید تنقید کے بعد اپنے حامی مظاہرین کو گھر جانے کا کہا اگرچہ آخر میں "میں تم سے پیار کرتا ہوں" کا تڑکا بھی لگایا، اور ان کی اہل خانہ کے ساتھ اس حملے کی لائیو کوریج انجوائے کرنے کی مبینہ ویڈیو منظرعام پر آگئی ہے لیکن آج انہوں نے خود پر شدید تنقید کیے جانے کے بعد کہا کہ اس حملے نے امریکی جمہوریت کے مرکز کو ناپاک کردیا ہے اور مظاہرین سے کہا کہ آپ ہمارے ملک کی نمائندگی نہیں کرتے اور ان لوگوں کو جنہوں نے قانون توڑا ہے کہتا ہوں آپ کو اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔"اور اگرچہ اس سے پہلے انہوں نے صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن کی جیت کو ہار میں بدلنے کے خلاف ہر ممکن سازش کی اور اب تک ان کو انتقال اقتدار میں ہر ممکن رکاوٹ ڈالنے کی کوششیں کررہے تھے، لیکن اب متوقع مواخذے اور احتساب کے خوف سے وہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ پارلیمنٹ نے نتائج کی توثیق کر دی ہے تو ضمانت دیتا ہوں 20 جنوری کو ایک نئی انتظامیہ امریکا کی باگ ڈور سنبھالے گی۔امریکی عوام تاریخ کا یہ سبق یاد رکھیں کہ فسطائیت پسندوں، جو اپنے سیاسی مقاصد کےلئے تشدد کو جائز سمجھتے ہیں اور جو ٹرمپ اور ان کے ساتھی یقیناً ہیں، سے نمٹنے کےلئے دلجوئی ناکام ترین حربہ ثابت ہوا ہے۔ یہ انہیں مزید حوصلہ دیتی ہے تو پھر بہت سے افراد کیوں ٹرمپ کے بے بنیاد مطالبات، الزمات اور تشدد کو برداشت کرتے رہے ہیں اور اب تک کیوں ان ساتھ دے رہے ہیں؟ پارٹی اور میڈیا میں ٹرمپ کے اکثر حامی ابھی تک اس حملے میں ٹرمپ کے کردار سے انکار کررہے ہیں اور ا سے قانون شکنی کے بجائے عوام کی جانب سے مایوسی کا اظہار کہہ رہے ہیں۔ کیوں؟یہ سلسلہ کب سے چل رہا ہے۔ فروری میں مٹ رومنی کے سوا سب ریپبلکن سینیٹروں نے مضبوط شہادتوں کے باوجود ٹرمپ کے مواخذے کے خلاف ووٹ دیا۔ سون کالنز نے ووٹ ڈالتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے سبق سیکھا ہے۔ مگر ٹرمپ نے سیکھا کہ وہ بغیر کسی خوف کے مزید قانون شکنی کرسکتے ہیں کیوں کہ اس کہ پارٹی اسے بچانے آئے گی۔ پھر اس بہار میں ان کی شہہ پر مسلح کارکنوں نے مشی گن کے عمال کو کورونا پابندیوں پر ڈرایا دھمکایا۔ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ یعنی آپ اگر سفید انتہا پسند اور مسلح ہوں تو آپ سرکاری اہلکاروں کو ڈرا سکتے ہیں اور آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔پھر ٹرمپ کا انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار سامنے آیا تو اکثر ریپبلکن ان کی بے بنیاد الزام تراشی میں اسکے ساتھی بن گئے حتیٰ کہ چھ جنوری کو بھی دو تہائی ریپبلکن ہاو¿س ارکان (149) نے بائیڈن کی جیت کی تصدیق سے انکارکیا۔بدھ کو ٹرمپ کی جانب سے احتجاج اور حملے کا خطرہ تھا مگر کوئی حفاظتی اقدامات نہ اٹھائے گئے۔ گرفتاریاں بھی نہیں ہوئیں‘ ٹرمپ کے ایک کے سوا سب سیکریٹریوں نے اس حملے کی مذمت کی ہے، اب تک دو نے سیکریٹریوں اور چند اہلکاروں نے استعفے بھی دئیے ہیں اور نفرت پھیلانے اور جھوٹ بولنے پر ٹویٹر اور فیس بک نے ٹرمپ کے اکاو¿نٹس بند کر دئیے ہیں اور ریپلکن پارٹی کے کئی ارکان (مثلاً کانگریس کی خاتون رکن لین چینی) بھی صدر ٹرمپ کو اس سب کچھ کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں لیکن یہ کافی نہیں۔تو ان میں ملوث افراد گرفتار کیے جائیں۔ انتقال اقتدار کےلئے اور بعد میں بائیڈن کی حفاظت کےلئے سخت حفاظتی اقدامات اٹھائے جائیں۔ یہ نہ کہا جائے کہ مستقبل کی طرف دیکھیں۔ پچھلے چار سال میں جتنی بھی قانون شکنی اور آئین شکنی ہوئی ہے ان کی تحقیقات کی جائیں اور مناسب کاروائی کی جائے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کرنے سے پہلے سو بار سوچا کرے۔ کانگریس پر حملے کے بعد صدر ٹرمپ سے فوری استعفٰی دینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے 25 ویں آئینی ترمیم یا مواخذے کے ذریعے ٹرمپ کو ہٹانے کی بات شروع کردی ہے۔ ڈیموکریٹ کانگریس رکن الہان عمر نے کہا ہے وہ صدر کے خلاف مواخذے کیلئے مواد اکٹھا کر رہی ہیں۔یہ ترمیم اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب صدر نااہل اور عہدہ چھوڑنے پر راضی نہ ہو۔ اگر صدر کی کابینہ کی اکثریت 25 ویں ترمیم کے حق میں فیصلہ دیتی ہے۔ کابینہ کے فیصلے کی توثیق نائب صدر کردیتا ہے تو موجودہ صدر برطرف اور نائب صدر عارضی طور پر صدر بن جاتا ہے۔تاہم صدر ٹرمپ کے مواخذے کے لیے ریپلکنز کی مدد کی ضرورت ہے۔ یعنی امریکہ میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا مستقبل ریپبلکن ارکانِ کانگریس کی مدد پر منحصر ہے۔ کیا وہ اپنی پارٹی کے صدر ٹرمپ کی آئین شکنی کا ساتھ دینگے یا آئین اور جمہوریت کا؟واضح رہے امریکی آئین کے تحت صدر کو 'غداری، رشوت خوری، یا دیگر بڑے جرائم اور غلط رویوں کی بنا پر مواخذہ کرکے ہٹایا جا سکتا ہے۔ 'ڈونلڈ ٹرمپ کا دسمبر 2019 میں ایک بار پہلے بھی مواخذہ کی ناکام کوشش ہوئی تھی۔ اگر پھر یہ کاروائی ہوتی ہے تو وہ پہلے صدر ہوں گے جس کا دو مرتبہ مواخذہ کیا گیا ہو۔