ڈیڈ لائن۔۔۔۔۔

دہشت گردی کی مالی سرپرستی (معاونت) روکنے اور انسدادِ دہشت گردی کے بنیادی تصور کے تحت قائم ہونے والی عالمی تنظیم ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘ کی جانب سے دباو¿ کے باعث پاکستان میں سخت گیر مالی نظم و ضبط لاگو کرنے کا اصلاحی عمل جاری ہے‘ جن کے تحت لئے جانے والے مشکل فیصلے مستقبل میں آسانیوں کا باعث (مو¿جب) بنیں گے۔ اِسی سلسلے کی ایک کڑی لاہور کی ایک خصوصی عدالت (انسداد دہشت گردی) نے کالعدم تنظیم کے کمانڈر ذکی الرحمٰن لکھوی کو پانچ سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے اُن پر دہشت گردی کی معاونت کا جرم ثابت ہوا ہے۔ عدالت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی تین دفعات پر پانچ‘ پانچ سال قید اور ایک‘ ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تاہم یہ سزائیں ایک ہی وقت میں شروع ہوں گی۔ محکمہ¿ انسداد دہشت گردی کی جانب سے لکھوی اور ان کے ساتھیوں پر گذشتہ ماہ (دسمبر دوہزاربیس میں) مقدمہ درج کیا گیا‘ جس میں ان پر دہشت گردی کی معاونت کے لئے غیر قانونی چندہ جمع کرنے اور دہشت گردوں کی مالی مدد کرنے کا الزام لگایا گیا تھا جس کے بعد انہیں 2 جنوری (دوہزاراکیس) کو خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی کاروائی میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ معاملہ اِس قدر اہم تھا کہ اِس کے بارے میں امریکی محکمہ¿ خارجہ کی جانب سے ٹوئیٹر پر بیان بھی جاری ہوا جس میں امریکہ کی جانب سے لکھوی کی گرفتاری کو خوش آئند اقدام قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ”یہ اقدام دہشت گردی اور اس کی مالی معاونت میں ملوث ہونے کا ذمہ دار ٹھہرانے میں اہم ثابت ہوگا۔ایف اے ٹی ایف‘ کے دباو¿ پر گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران پاکستان کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے سربراہوں اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاریوں میں غیرمعمولی تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور اِسی سلسلے کی ایک پیشرفت نومبر دوہزاربیس میں اُس وقت سامنے آئی‘ جب جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید کو تین مختلف اِلزامات میں مجموعی طور پر ساڑھے دس برس قید اور ایک لاکھ دس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو دی گئی ڈیڈلائن فروری دوہزاراکیس کے آخر میں ختم ہو جائے گی اور اِس ”ڈیڈ لائن“ کے قریب آتے ہوئے عالمی اور قومی ذرائع ابلاغ پر تجزیہ کار سوال پوچھ رہے ہیںکہ کیا پاکستان معلوم عسکری تنظیموں اور اُن کی سرکردہ شخصیات کے خلاف کاروائیاں کیا صرف ’ایف اے ٹی ایف‘ کے دباو¿ میں کر رہا ہے؟’ایف اے ٹی ایف کا دباو¿ اپنی جگہ لیکن صدر ٹرمپ کی شکست کے بعد سے عالمی تناظر میں بہت ساری حکمت عملیوں اور ممالک کے درمیان تعلقات تبدیل ہونے کی توقع ہے پاکستان کے نکتہ¿ نظر سے دیکھا جائے تو دہشت گردی سے زیادہ نقصان خود پاکستان ہی کو اٹھانا پڑا ہے پاکستان عالمی برادری کو یہ اطمینان (یقین) دینا چاہتا ہے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث نہیں جبکہ پاکستان اپنے لئے ’ایف اے ٹی ایف کو ’سر پر لٹکتی تلوار سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسی گرفتاریاں اور عدالتی فیصلے سامنے آ رہے ہیں جن کے بارے میں اقدامات میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اگر افغانستان میں قیام امن کے جاری ’بین الافغان مذاکرات‘ کامیاب ہو جاتے ہیں اور اِن مذاکرات کے نتیجے میں طالبان کو کسی نہ کسی صورت قومی فیصلہ سازی کے عمل میں شرکت کا موقع ملتا ہے تو یہ پاکستان کےلئے اچھی خبر ہو گی ۔