ان دنوں ہوائے دماغِ چمن درست نہیں ہے ۔ہوا تیز ہے ۔ بلکہ تیز طرار ہوئی جاتی ہے ۔ایک جوش و جذبہ ہو جیسے ۔جیسے بپھری ہو ۔ سب کچھ نوچ نوچ کر اتار دینے کے درپے ہے ۔ شاخوں پر سے جو پتے بوٹے اوندھے منہ گرتے ہیں وہ توگئے مگر جو شاخوں پر ہیں وہ وہیں مرجھا گئے ہیں ۔کون سی کلی ہو جو ان دنوں سرِ شاخ لہلہاتی ہو کون سا پھول ہے جو شاخساروں میں اس ہوا کے جھولنے میں جھولتا ہو۔پھول مرجھا گئے کلیاں کملا گئیں۔ اب کے بہار کا انتظار ہے ۔درختوں نے شاخوں کے زرد پتوںسے خود کو مبرا کر دیا ہے۔خزاں دید ہ شاخیں تک زمین پر آ رہیں۔ہوا یخ ہے او رتیز رفتارہے دھوپ سہمی ہوئی ہے ۔اس موسم نے بہت کچھ تہہ وبالاکر دیا ہے مگر یار دوست ہیں قرابت دار ہیں کہ نتھیاگلی کے برفزاروں سے تصویریں شیئر کر رہے ہیں ۔ جن کو دیکھ کر جسم و جاں میں سردی کی لہر ایک جھرجھر ی سی دوڑ جاتی ہے۔یہ وہ شہرِ گل ہے جہاں پھولوں کی بہاراپنا جوبن دکھلاتی ہے مگر آج کل تو ہوا نے فیصلہ لکھ دیا ہے ۔فیصلہ تو پرسوں شام کو چلنے والی برق رفتار اور ٹھنڈی ٹھار ہوانے سنادیا تھا ۔جب اس نے جلتے ہوئے چراغ اچانک بجھا دیئے تھے۔کسی من چلے کا شعر یاد آیا ہے ” دستار سنبھالو کہ ہوا تیز ہے یارو۔ عزت بھی یہاں پیڑ کے پتے کی طرح ہے “۔دستانے اتارو تو لہو رنگ ہیں پنجے ۔یہ ظاہری انسان درندے کی طرح ہے ۔کمان کے چلے میں سے تیز ترین اس تیر سی نکل جانے والی نے تو دھوپ میں بیٹھنے کا مزہ بھی غارت کر دیاہے۔ اس ہوا کا دماغ درست نہیں ہے ۔سب کچھ غرق کر دینے کی کوشش میںہے ۔یہ اب کی تو بات نہیں یہ تو ہر سال ہوتا ہے ۔بادِ صرصر اسی طرح پھولوں کو شاخوں پر سے چن چن کر نوچ نوچ کر اتارتی جاتی ہے اور بہار کی ہوا بادِ صبا انھیں کلیوں کو جھولا جھلا کر اپنی گود کے پالنے میں ہلا ہلاکر بڑا کرتی ہے انھیں گدگداتی ہے ۔وہ فیض نے کہہ نہیں دیا تھا ” گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے ۔ چلے بھی آ¶ کہ گلشن کا کاروبار چلے “۔ مگر اب کے تو گلستاں کے کاروبار کے چلنے میں رکاوٹیں بہت ہیں اور بہت سی رکاوٹیں ازسر نو ڈالی جا رہی ہیں ۔مگر دیکھیں زمانے کی اپنی ہوا کس رخ پر چلے گی ۔دیکھیں آخر ہوتا کیا ہے ۔یہ تو تیز ہوا¶ں کا دیس ہے ۔کبھی توبادِ بہاری ہے اور کبھی بادِ شمال ہے ۔بس ایک جنجال ہے یا ایک وبال ہے ۔ مخالف ہوا ہے یا جانبدار ہوا ہے ۔برا حال ہے ۔مگر اس سے زیادہ برا حال نہ ہو وہ یوں کہ ” باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے ۔جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے“۔ یار دوست کورونامیں الجھے پڑے ہیں ۔دانہ کےلئے گرفتار ِ قفس ہیں۔ پھڑپھڑاتے ہیںکہ باہر نکل کر ہم جولیوں کے سنگ ہوا ¶ں میں اڑتے پھریں مگرجب شہرکی بقا ضمانت دے کہ پہلے ایک دوسرے سے نہیں ملنا اور شہر کا اجڑنا ضروری ہے تو پھر شہر بھر میں یہ ہوا ہو یا کورونا کی وبا ہو کاٹنے والی ہوا کی طرح شہر کی گلیوں کوچوں میں خاک اڑاتی کیوں نہیں پھرے گی۔ شہری شہر میں گھوم بھی رہے ہیں کوٹیاں بھی پہنی ہیں اور جسم و اندام پر لرزہ بھی طاری ہے ۔ گلی کوچوں کی دیواروں کو چاٹنے والی گیس پائپ لائنوں میں گیس ہی نہیں جو اندر کمرے میں چولھوں پر ہاتھ تاپے جائیں۔لکڑیاں کب تلک جلیں گی۔ نئے گیس کے ذخیرے دریافت ہو رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی جا رہی ہیں۔مگر گیس نکل آنے کے باجود گیس کی قلت ہے ۔دھما دھم کی آوازیں چمن کی ہوا کے دماغ کے درست نہ ہونے کی خبریں دے رہی تھیں۔گھرکا مین گیٹ کھولو تو مہمان کے اندر آنے سے پہلے تیز ہوا کے جھونکے اندر آنے لگے۔پھر کسی مقام پر کہیں باہر جا¶ ہوا جلدی باہر نکلنے کو دھکے دیئے جاتی ہے ۔میں اور میرا شہر ۔پھر یہ تیسری قوت کا کہاں سے گذر ہونے لگا ۔ جو نہ کہیں آنے دیتی ہے او رنہ کہیں جانا ٹھہر جائے تو جانے دیتی ہے ۔کاٹ ڈالنے والی ہوا ہے ۔آگے ماحول میں خشکی ہے دماغوں میں دلوں میں سردی کے ہاتھوں خشکی کی گذران ہے اوپر ہوا ئے خشک زیادہ اور خشک کئے دیتی ہے ۔اگر شاعر ہوتو دور تک جہاں تک حدِ نگاہ ہے جائے اور اس کے ذہن کے کینوس پر شعر آئے۔ساحر لدھیانوی ہو تو ” چندکلیاں نشاط کی چن کر ۔مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں۔ تیرا ملنا خوشی کی بات سہی ۔تجھ سے مل کراداس رہتا ہوں“۔یہ اداسی رگوں میں اترتے ہوئے اندھیرے کی مانند اداسی تو کسی موسم کے کھل اٹھنے کے منتظر نہیں ہوتی ۔یہ تو ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ خزاں میں بھی ہوگی او ربہار میں بھی ۔بلکہ اداس لوگوں کا اپنا ایک گروپ ہوتا ہے جو سارا سال اپنے اندر کی کھوج میں مصروف رہتا ہے۔