بجلی بریک ڈاو¿ن۔۔

معمول اور خلاف معمول کے درمیان بسر ہونے والی زندگی میں عوام و خواص ہر وقت کسی نہ کسی غیرمعمولی واقعے کے رونما ہونے کے منتظر رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی بڑا حادثہ یا کسی حکومتی ادارے کی خلاف معمول کارکردگی سامنے آتی ہے تو اِس پر زیادہ تعجب کا اظہار یا اِس کے آئندہ رونما نہ ہونے کا ’پرزور مطالبہ‘ نہیں کیا جاتا کیونکہ ایسا کرنا عوام کی اکثریت کے لئے بے سود ہے۔ توانائی بحران (بجلی و گیس کی عمومی کمی) نئی بات نہیں لیکن اِس بحران کی شدت میں اگر کوئی محرک اضافہ کرتا ہے تو اِس پر اظہار رائے کے نئے ذرائع (سوشل میڈیا) استعمال کرنے والے پاکستانی صارفین دل کھول کر اپنے تاثرات کو مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں۔ سیدھے سادے جملوں سے لیکر اشعار اور ذومعنی باتوں سے قومی فیصلہ سازوں کی اِس جانب توجہ دلائی جاتی ہے کہ وہ محکموںکی کارکردگی بہتر بنائیں ‘بجلی کے ترسیلی نظام میں پیدا ہونے والی ایک رکاوٹ پورے ملک میں تعطل (بریک ڈاو¿ن) کا باعث بنی ہے‘ جس سے چاروں صوبوں میں سبھی بڑے شہر اور دیہی علاقے بشمول خیبرپختونخوا متاثر ہوا ہے۔ تکنیکی طور پر اِسے ’ترسیلی نظام کی فریکوینسی صفر‘ ہونا کہا جاتا ہے جس کے باعث بجلی کی فراہمی رک جاتی ہے۔ ہفتے اور اتوار (دس جنوری دوہزار اکیس) کی درمیانی شب ہوئے بجلی بریک ڈاو¿ن سے مکمل ترسیلی نظام (ٹرانسمیشن) جو کہ بائیس ہزار میگا واٹ کی ترسیل اور تقسیم پر مبنی ہے رک گیا۔ جس سے خیبرپختونخوا‘ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کے شہری و دیہی علاقوں پر تاریکی چھاگئی اِس سلسلے میں وزارت توانائی کی جانب سے وضاحت جاری ہوئی کہ فریکونسی گر گئی ہے اور تربیلا سے بجلی بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں‘ جن کی کامیابی کی صورت مرحلہ وار اور ترتیب وار بجلی کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ بجلی کا مذکورہ بریک رات گیارہ بج کر اکتالیس منٹ پر گدو کے مقام پر پیدا ہونے والی ایک خرابی کے باعث شروع ہوا۔ پاور ڈویژن کے جاری بیان کے مطابق ”مذکورہ خرابی نے ملک کی ہائی ٹرانسمیشن میں ٹرپنگ کی اور اس کے باعث ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں سسٹم کی فریکوینسی پچاس سے صفر پر آگئی اور فریکوینسی گرنے کے باعث بجلی گھر خودبخود بند ہوتے چلے گئے۔“ وزارت ِتوانائی کی جانب بارہ گھنٹے گزرنے کے بعد بجلی کی بحالی شروع کرنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن پشاور سمیت ملک کے کئی شہروں میں منقطع برقی رو بحال نہیں ہو سکی ہے۔ وزارتِ توانائی کی جانب سے گدو کے مقام پر پیدا ہوئی جس ”فنی خرابی“ کا ذکر کیا گیا اور جس کی وجہ سے پورے ملک میں ’ہائی ٹرانسمیشن لائن بند ہوئی اُس کے بارے میں بھی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ گڈو تھرمل پاور سٹیشن سندھ کے ضلع کشمور میں دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے ۔ بجلی کی فراہمی بحال کرنے کےلئے تربیلا اور ورسک بجلی گھروں کے متعدد حصے چلائے گئے۔سوشل میڈیا پر اِس پوری صورتحال میں پرانی خبریں اور چہ میگوئیوں کا تبادلہ کیا گیا جس میں سال 2015ءمیں رونما ہونے والے ایک ایسے ہی ’بریک ڈاو¿ن‘ کی (پرانی) خبریں اور تصاویر شامل ہیں۔بجلی کا بریک ڈاو¿ن ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب ملک کے سبھی بڑے شہروںمیں علاج گاہیں کورونا سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں کورونا مریضوں سے بھری پڑی ہیں اور نجی علاج گاہوں یا اپنی قیام گاہوں پر مصنوعی آلات تنفس کے ذریعے کورونا وبا سے لڑنے والوں کی زندگی کا انحصار برقی رو کے رواں دواں رہنے پر ہے۔ نجی علاج گاہوں میں جنریٹر اور قیام گاہوں میں بیٹری کی طاقت سے ’یو پی ایس‘ بجلی فراہم کرتے ہیں لیکن یہ دونوں ذرائع اُس صورت میں پائیدار نہیں جبکہ برقی رو 12 گھنٹے سے زیادہ طویل دورانیئے میں بحال نہ ہو سکے۔ بجلی بنیادی ضرورت ہے اور خصوصی حالات میں اِس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ برقی رو حاصل کرنے کا متبادل ذریعہ ’شمسی توانائی (سولر انرجی)‘ ہے جس میں ایک گھر کے استعمال کے سبھی آلات بشمول موبائل فون چارجنگ بھی شمسی توانائی سے چلائی جا سکتی ہے لیکن اِس کےلئے پانچ سے دس لاکھ روپے کی سرمایہ کاری درکار ہو گی جو پندرہ سے بیس سال تک بلاتعطل بجلی فراہم کر سکتی ہے لیکن اِس قدر سرمایہ کاری عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ ہے جسے قابل برداشت بنانے کے لئے آسان شرائط پر قرضہ جات اُور فنی و تکنیکی علوم کی درسگاہوں میں تربیتی مواقعوں کو متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ دانشمندی اِسی میں ہے کہ اچھے دنوںکی اُمید اُور دعاو¿ں کے ساتھ بُرے دنوں کی تیاری بھی رکھنی چاہئے۔