انگیج افریقہ پالیسی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت افریقی ممالک کے ساتھ معاشی روابط کے فروغ کیلئے پرعزم ہے، پاکستان افریقی ممالک سے معاشی تعاون کا فروغ، دو طرفہ تعلقات اور عوام کی سطح پر روابط کو فروغ دے گا، افریقی ممالک کے ساتھ زراعت، صحت، ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں کیونکہ افریقہ اور پاکستان کے مابین دو طرفہ تعلقات اور معاشی و تجارتی تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں۔یہ بات انہوں نے معاشی سفارت کاری کے فروغ اور انگیج افریقہ پالیسی کے حوالے سے وزارت خارجہ میں افریقی ممالک کے سفرا ءکے ساتھ ملاقات کے دوران کہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان افریقی ممالک میں نہ صرف اپنے سفارت خانوں کو اپ گریڈ کر رہاہے بلکہ وزیر اعظم کی مشاورت سے وزارت خارجہ بعض نئے افریقی ممالک میں سفارت خانے کھولنے کا فیصلہ بھی کر چکاہے۔وزیر خارجہ کاکہنا ہے کہ انہوں نے افریقی ممالک میں تعینات پاکستانی سفراءکو خصوصی ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان اور افریقہ کے مابین دو طرفہ تجارت اور معاشی تعاون کے فروغ کےلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں۔ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے چند ماہ قبل کورونا وبا ءکی صورتحال کے باوجود وزارت تجارت کی معاونت سے کینیا کے دارلحکومت نیروبی میں ٹریڈ کانفرنس منعقد کی ہے نتیجتاً افریقی ممالک سے گزشتہ چند ماہ کے دوران ہماری تجارت کے حجم میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کے لئے افریقی ممالک کے ساتھ زراعت، صحت، سائنس وٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان نے ویزہ کے حصول میں سہولیات فراہم کرنے کےلئے کئی عملی اقدامات اٹھائے ہیںلہٰذا توقع ہے کہ افریقی ممالک بھی پا کستانی بزنس کمیونٹی کوویزہ کے اجراءمیں سہولت فراہم کریں گے۔اس سلسلے میں موجودہ حکومت نے انگیج افریقہ پالیسی کے تحت جو اقدامات شروع کررکھے ہیں امید کی جانی چاہئے کہ اس کے انتہائی خوشگوار نتائج جلد سامنے آئیں گے۔یہاں اس امر کی نشاندہی اہمیت کی حامل ہے کہ اینگیج افریقہ پالیسی کے عنوان سے گزشتہ دنوں ہونے والے اجلاس میں افریقہ میں قائم پاکستان کے چودہ سفارت خانوں کے سفیروں نے ورچول شرکت کی تھی جن میں ابوجا، عدیسا عبابا، الجائر،نیروبی، ٹرائی پولی، پورٹ لوئس، رباط، پری ٹوریا، نیامے، خرطوم، دارالسلام، ڈاکار، ہرارے،قاہرہ اور تیونس میں متعین سفراءشامل تھے۔اس اجلاس میں پاکستانی سفراءنے معاشی سفارت کاری کے تحت وزارت خارجہ کی طرف سے طے کردہ اہداف کے حصول کیلئے کی جانے والی کاوشوں سے وزیر خارجہ کو آگاہ کیا ۔ دراصل یہاں ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ معاشی سفارت کاری محض درآمدات اور برآمدات تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک کثیر الجہتی اور جامع عمل ہے ۔ افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ افریقہ 1.3 ارب آبادی اور 54 ممالک پر مشتمل دنیا کاایک اہم براعظم ہے لیکن بدقسمتی سے اس کے ساتھ ہمارے وہ مثالی سفارتی روابط نہیں ہیں جو کہ ہونے چاہئیں حالانکہ گزشتہ صدی میںپاکستان نے افریقی ممالک کی بیرونی تسلط سے نجات کی جدوجہد میں ان تمام ممالک کی بلا تفریق رنگ،نسل ہرممکن مدد کی تھی جس کی سب سے نمایاں مثال جنوبی افریقہ کی نیلسن مینڈیلا کی قیادت میں سفید فام نسل پرست انتظامیہ سے آزادی کی تاریخی جدوجہد میں پاکستان کا ہرفورم پر ان کاساتھ دینا تھا۔ اسی طرح پاکستان کافی عرصے سے افریقی ممالک میں امن کی بحالی کیلئے اقوام متحدہ کی قیام امن کی کوششوں میں جو فعال اور نمایاں کردار ادا کرتا آ رہا ہے افریقی ممالک اس پر بھی پاکستان کو اپنا دوست اور محسن ملک سمجھتے ہیں۔واضح رہے کہ بہت سے افریقی ممالک او آئی سی کے رکن ہیں اور وہ بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی موقف کی تائید اور حمایت میں آواز بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افریقہ نے تقریبا ًتمام شعبوں میں نمایاں پیشرفت کی ہے افریقی ممالک نے غربت کے خاتمے، ناخواندگی کو کم کرنے کے سلسلے میں جو پیشرفت کی ہے نیززراعت کی ترقی، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، ماحولیاتی آلودگی اوردہشت گردی پر قابو پانے اورتوانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے میں جوکامیابیاں حاصل کی ہیںوہ بھی یقیناً قابل ستائش ہےں لہٰذا توقع ہے کہ پاکستان افریقی ممالک سے تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے علاوہ سلامتی اور دفاع کے ساتھ ساتھ باہمی عوامی روابط کے فروغ پر بھی خصوصی توجہ دے گا۔