بھائی جی بس انبار لگے ہیں‘ڈھیرو ںہیں ‘ایک کے بعد دوسرا پلندہ۔جدا جدا گھٹے ہیں۔بس طومار لگے ہیں۔اوپر نیچے بنڈل ٹھنسے پڑے ہیں ۔ایک نہیں ہزاروں ہیں۔ہرایک کہتا ہے اب میری باری ہے ۔اگر میں کہیںانکار کا سا منہ بنا لوں تو کوئی ایک تڑی بھی دیتا ہے۔ اپنی خیر چاہتا ہے تومیری طرف منہ پھیر لے ۔ مجھے دیکھ ۔مگر یہاں تو میں عاجز آ چکا ہوں ۔ کس کس کو دیکھوں ۔کس کو پہلے باری دو ںاور کس کوبعد میں۔ہر ایک کی ضد ہے کہ پہلے میں اور پہلے میں ۔ایک کہتا ہے میری اہمیت زیادہ ہے ۔ اب سوچتا ہوں اس چھوٹے سے چوکٹھے میں پہلے کس کوجگہ دوں اور کس کو بعد میں ۔ہرمسئلہ اپنی جگہ مسئلہ نہیں بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس لئے اہم ہے کہ اس کا ہماری زندگی کے ساتھ سیدھے سبھا¶ واسطہ ہے۔اتنی سی زندگی ہے اتنا سا شہر ہے اور اتنے گھمبیر اور کثیر مسائل ہیں اگر شہرِ جیدار تک محدود رہا جائے اس کے مسئلوں کو بحث کا نشانہ بنایا جائے تو بھی ختم ہونے کا نام نہ لیں۔پھر اگر قلم کا گھوڑا سرپٹ دوڑااور بے لگام ہو کر بے قابو ہوا اور پوری ارضِ وطن کے مسئلوں کو قلم زد کرے تو بس پوری زندگی اگر صرف ایک یہی کام کیا جائے کہ درپیش مسئلوں کا بیان ہو تب بھی عمر گزرے گی مگر یہ انبار ختم نہ ہوگی۔الفاظ تو کبھی قطار اندر قطار کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اب میری باری ہے ۔چلو ان کے ساتھ تو نپٹ لیتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کی پوزیشن کو تبدیل کرنا پڑتا ہے ۔ان میں ترتیب قائم کرنے کے لئے ان کو آگے پیچھے کرناپڑتا ہے ۔ مگر مسئلہ تو ہر ایک جلتا ہوا ہے جلانے والا اور جلاڈالنے والا ۔یہ تو مسائل کا نگرہے وسائل تو یہاں سے بہت دور ہیں ۔ پہاڑوں پر ہیں ۔اب ہم میں اتنی تپ کہاں اتنی تاپ کہاں اتنی تپڑ کہ ہم پہاڑوں کی ٹھنڈی ٹھار چوٹیوں پر کوہ پیمائی کر کے وہاں اپنی قلم آرائی کے جھنڈے گاڑھ کے آ جائیں۔ سو ہم نے اسی زمین کے مسئلے زیرِ بحث لانے ہیں ۔کبھی کبھی تو کسی کہنہ مشق اور پرانے گھاگ کسی دفتر کے دور پار تبادلے کے ڈر سے پروموشن چھوڑ کر اسی پوسٹ پر بھنویں سفید کر دینے والے کلرک کی طرح مسائل کے ان گھٹوں تلے دب کر بیٹھے بیٹھے سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ اب کیا کریں۔کس مسئلے کی فائل اس کالم کے چوکٹھے میں آگے کریں اور کس کو پیچھے نمبر پر لگا دیں۔ ایک ایک اور نمبرواری ۔مگر یہ جمع واری یہ سپر داری یہ جمعداری انچی ٹیپ اور فیتوں کا چکر جوں پٹواری ختم نہ ہوگی۔ مسائل کی زمین دور از حدِ نگاہ اتنی کشادہ وسیع ہے کہ جس پر پیدل چل کر مسائل کے اُگے ہوئے کانٹے دیکھنے کو کم از کم ایک عمر او ر درکار ہے ۔کسی عمارت کے وسیع ہال میں کسی مسئلے پر بحث کے لئے پروگرام منعقدہوتا ہے ۔مقرر بیان کرتے ہیں ۔مگر مسئلہ ختم نہیں ہوتا۔پروگرام ضرور ختم ہوجاتا ہے ۔چائے شائے پی جاتی ہے۔بسکٹوں کو دودھ پتی چائے میں ڈبو ڈبو کر نوش فرمایاجاتا ہے ۔مگر مسئلہ کی گردن کوئی نہیں دبوچتا ۔کھانے چٹ ہو جاتے ہیں او روسائل تلاش کرنے کے ضمن میں پیش آمدہ وسائل جوں کے تو ں میز پر پیچھے باقی رہ جاتے ہیں ۔ہم گھرآکر زرق برق بستروں کی خواب گاہ کے فوم میں ڈوب کر خوابوں میں سراغِ زندگی پالیتے ہیں ۔ دوسرے دن صبح دیر گئے اٹھ کر بستر پر چائے کاکپ بیڈ ٹی کے طور پر نوشِ جاں کرتے ہیں۔ پھرایک نئی تقریب میں بطورِ مہمانِ خصوصی دوچار لفظ ذہن کی ڈائری میں جوڑ کے وقتِ مقررہ پر گاڑی میں لد کر تقریر کرنے کے لئے پروگرام کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں ۔وہی الفاظ ہوتے ہیں جو دہن کی کمان چلے میں جوڑ کر پریزیڈیم میں تشریف فرما مہمانانِ گرامی کو نا م سے آواز دے کر ان کی طرف چھوڑدیتے ہیں ۔ہال کے ناظرین و سامعین کے علاوہ سٹیج کے تذکرہ نگاروں کی دادکے ڈونگرے الگ سے سمیٹ کر وہاں سے جھوٹی تعریف کی جھولیاں بھر بھر کے لے آتے ہیں۔ مگر مسئلے کا حل کیانکلا یا اس کاحل کب تک ہوگا اس کے لئے کیا اقدمات کرناہیں اس پر سوچنے کے لئے ہمارے پاس ٹائم جو نہیں ہوتا ۔کیونکہ ہم نے دو ایک دن کے بعد اگلی کسی اعلیٰ شرکائے کرام والی تقریب میں شرکت جو کرناہوتی ہے ۔