صوبے کے میگا پراجیکٹس۔۔

تین اچھی خبریں ایک ساتھ آگئی ہیں پہلی خبر یہ ہے کہ اقتصا دی تعاون کو نسل کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے بجلی کے خا لص منا فع میں خیبر پختونخوا کے واجبات اے جی این قاضی فار مو لے کے تحت ادا کرنے کی منظوری دی ہے فار مولے کے تحت اس سال صو بے کو 8ارب روپے ملیں گے ان میں سے 3ارب روپے سال کے پہلے ما ہ ادا کئے جا ئینگے دوسری خبر یہ ہے کہ سنٹر ل ڈویلپمنٹ ور کنگ پا رٹی ( سی ڈی ڈبلیو پی )نے صو بے کے 27تر قیا تی منصو بوں کی منظوری دی ہے تیسری اہم خبر یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ محمو د خا ن نے اسلا م آباد میں وزیر اعظم عمران خان سے ملا قات کر کے صوبے کے میگا پرا جیکٹس کےلئے فنڈ کی فرا ہمی پر تبادلہ خیال کیا ہے وزیر اعظم نے ایک بار پھر یقین دلا یا ہے کہ خیبر پختونخوا کے میگا پرا جیکٹس کےلئے فنڈ کی بلا تعطل اور بلا تا خیر فراہمی وفاقی حکومت کی پہلی تر جیح ہے کیونکہ مو جو دہ اسمبلیوں کی آدھی مدت گذر چکی ہے بقیہ آدھی مدت میں قلیل مدتی ، درمیا ن مدتی اور طویل مدتی منصوبوں کو عملی جا مہ پہنا نا آسان نہیں صو بے کے پہا ڑی علا قوں میں صرف7مہینے کا م کا سیزن رہتا ہے 5مہینے کوئی کام نہیں ہوتا مو سم کی سختی کام کے راستے میں حا ئل ہو تی ہے میگا پر اجیکٹس ایسے منصو بے ہو تے ہیں جن کے مختلف مرا حل بڑے وقت طلب اور جا ن گسل ہو تے ہیں کنسلٹنٹ کا تقرر اور فیز یبلٹی کی تیا ری سے لیکر ٹینڈر دستاویزات تک کم از کم دو سال کا عر صہ لگ جا تا ہے خصو صی طور پر تو ا نا ئی کے منصو بوں میں کام کے یہ مر حلے بہت مشکل سمجھے جا تے ہیں اخباری رپورٹوں کے مطا بق توا نا ئی کے منصو بوں میں بعض ایسے بھی ہیں ان کی فیز یبلٹی رپورٹیں پہلے تیارہیں یہ منصوبے دیر ، سوات ، کو ہستان ، گلگت بلتستان اور چترال میں ہیں اس طرح بنیادی ڈھانچے کے منصو بوں میں بعض بڑی سڑ کوں اور پلوں کےلئے فیز یبلٹی سٹڈیز ہو چکی ہیں سابق صوبائی گور نر لیفٹیننٹ جنرل (ر) افتخار حسین شاہ کو ترقیاتی کا موں کا بڑا تجربہ تھا ایک بار دوستوں کی محفل میں اُن کے احباب نے شکوہ کیا کہ آپ کے منصوبے شروع ہو نے میں غیر ضروری تا خیر ہو تی ہے شاہ صا حب نے کہا میں خود سوچتا ہوں کہ شاہ جہاں کے زما نے میں پلا ننگ کمیشن سے منظوری لینے کی ضرورت ہو تی تو تاج محل جیسا بڑا منصوبہ کبھی کا میاب نہ ہو تا بقول افتخا ر حسین شاہ یہ بھی ایک مشکل مر حلہ ہو تا ہے جب آپ کوئی بڑا منصوبہ اقتصا دی کونسل کی ایگز یکٹو کمیٹی کو منظور ی کےلئے بھیجتے ہیں اور 6ماہ بعد منصو بہ 10اعترا ضات کےساتھ واپس کر دیا جاتا ہے سارے اعترا ضا ت فنی اور تکنیکی نو عیت کے ہو تے ہیں ان کو دور کر کے دو بارہ منصو بہ منظوری کےلئے پیش کر نے میں کئی مہینے لگ جا تے ہیں تما م مراحل سے گذر نے کے بعد جب منصوبے پر کا م شروع ہو تا ہے تو فنڈ کی بروقت اور بلا تعطل فراہمی بہت لا زمی ہوتی ہے جو ڈیشنل کمپلیکس کی عما رتیں اس وجہ سے ادھوری پڑی ہیں دیر میں کوٹو ہا ئیڈل پاور پرا جیکٹ اور چترال میںڑا وی ہائیڈ رو پرا جیکٹ کو دفتری زبان میں ” کیش فلو “ کی کمی کا سامنا ہے بڑے منصو بوں کا ٹھیکہ دار چاہے ملکی کمپنی ہو یا غیر ملکی فرم ہو اس کی مشینری حر کت میں آنے کے بعد پھر نقد ادائیگی میں تعطل نہیں ہو نا چاہئے ۔وزیر اعلیٰ محمودخان کو ان تما م امکا نا ت اور خطرات کا بخوبی اندازہ ہے اُمید ہے کہ وہ اپنے سارے منصو بوں کو کامیابی سے ہم کنار کر کے 2023ءمیں سرخرو ہو کر عوام کی عدالت میں جائینگے۔