ہماری پین سے لکھی تحریر کا حال یہ ہے کہ اگر لکھیں تو اس وقت یاد رہتا ہے کہ کیالکھا ۔مگر گھنٹے دوبعد جب وہی لکھا ہوا نکال کرپڑھتے ہیں تو پڑھناایک طرف دیکھ کر بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ شکلیں کن کیڑے مکوڑوں کی ہیں۔کبھی تو ٹیکسلا اور موہنجودڑو کے کھنڈرات سے برآمد ہوئے کتبوں کی تحریر لگتی ہے کہ جسے سمجھنا تو دور کی بات پڑھنے تک کےلئے باہر کے ملکوں بھجوا دیا جائے۔ اگلے کو نظر نہیں آتا کہ اس ادیب و شاعر نے لکھا کیا ہے ۔ وہ کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں کہ اگر ہم خود پڑھ نہ سکے تو اور کون مائی کا لعل اس عبارت کو پڑھے گا۔ کبھی تو ہمیں خود کاکروج سے نظر آتے ہیں۔ لکھائی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہماری آنکھیں بھینگی ہو گئی ہیں ۔ مگر جب کاغذ سے ہٹ کر دوسری طرف نگاہ کرتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے کہ ہماری نظر اب اتنی بھی خراب نہیں۔ یہ تو ہمارا بھی نہیں لکھائی کا قصور ہے ۔صاحبان وقت کےساتھ ساتھ اس قسم کی مصیبتیں سر پر آن وارد ہوتی ہیں۔کبھی تو نظر خراب بلکہ نظریں تک خراب ہو جاتی ہیں اور کبھی خود دماغ خراب ہو جاتا ہے ۔اپنی رائٹگ کو چھپاتے ہیں کہ اگلا کیا کہے گاکہ مشہور ہونےکی خواہش رکھنے والے اس اردو کے نام نہاد استاد کی ہاتھ کی لکھائی اتنے برے حالوں میں ہے تو خود اس کا اپنا اس کی شخصیت کا اس کے اندرون و بیرون اور ذہنی بے ترتیبی کا کیا حال ہوگا۔اسی لکھائی سے اندازہ ہوتا ہے اور دل کو تسلی سی ہو جاتی ہے کہ ہم عام آدمی نہیں ہیں۔ کیونکہ میں نے اپنی ذاتی زندگی میں خدا جھوٹ نہ بلوائے بڑے بڑے افسروں کے رنگ ڈھنگ دیکھے ہیں۔ ان کی لکھائی تو کسی کو سمجھ ہی نہیں آتی تھی۔ خود ان کے نیچے کے افسر ان کے پی اے سے پوچھنے آتے ہیں کہ صاحب نے کیا لکھا ہے۔مگر پرائیویٹ اسسٹنٹ ہو یا پرائیویٹ سیکرٹری اپنے اندازے سے اپنے بڑے افسروں کی رہنمائی کر ہی دیتے ہیں ۔پھر خیال آتا ہے کہ بعض ڈاکٹروں کے لکھے ہوئے نسخے بھی تو میڈیسن سٹور والے نہیں پڑھ سکتے۔ وہی پڑھے گا جو ان کے کلینک کے نیچے والا قریب ترین دکاندار ہے۔اسی سے خیال آتا ہے کہ ہو نہ ہو ہم بڑے آدمی ہیں۔کیونکہ اب بنا سنوار کر کون لکھے او رخوشخطی کر ے۔ اتنا وقت کس کے پاس ہے۔پھر جتنا بھی سجا سنوار لیں وہی بھینگی سی لائنیں لکھیں توکیوں وقت ضائع کریں۔طلوع آفتاب کی روشنی ہو اور تا غروبِ آفتا ب ہو ۔سجا سنوار لیں اور ایک ورق ہو اور کوئی سمجھ جائے سوہمارے پاس اتنا وقت بھی تو ہو۔ہاں ایک زمانہ تھا کہ اپنی خطاطی پر ناز تھا۔بنا کر لکھتے تھے سجا کر پیش کرتے تھے۔ ہر کوئی ہماری لکھائی کا دیوانہ تھا۔ خط لکھتے تھے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو ۔وہاں سے جواب آتا آپ کی باتیں اپنی جگہ ( یعنی درست نہیں ہیں) مگر ہینڈ رائٹنگ زبردست ہے ۔ہم ناز و ادا سے دونوں ہاتھوںکے انگوٹھوں اور پہلی انگلی سے کالر جھٹکتے۔کیونکہ اس زمانے میں وقت ہی وقت تھا ۔ساری دنیا فارغ لگتی تھی۔ کوئی اور کام بھی تو نہ تھا۔ کسی کام میں ہاتھ ڈالتے تو پیچھے نہ ہٹتے صبح شام وہی کام۔ شاعری کرتے تو بس شاعری ہی کرتے۔آوارہ گردی پہ پلٹ جاتے تو سڑکوں کی خاک چھانتے۔گلی کوچوں میں ہو کر گزرتے تو دیکھنے والے لوگ ہمارے آنے جانے سے اپنی گھڑیاں درست کرتے۔ خطاطی کا شوق تو تھا۔ کم سنی کے اس عالم اسی خجل خواری میں خیبر بازار سے گزر ہوا تو ایک کٹرے سے عین نالے کے اوپر ہو کر تین سینما کی طرف نکلنے کی کوشش میں تھے۔وہاں ایک پینٹر کو دیکھا کہ فلموں کے بل بورڈ بنا رہاہے۔وہیں کھڑے ہو کر اس کے ہاتھوں کو دیکھتے رہے کہ کس طرح اس کے ہاتھ یہ تصویریں بنا رہے ہیں اور کیسے خو ش خط لکھائی میں مصروف ہیں۔کیونکہ دماغ میں تو یہی تھا کہ تصویریں تو ہاتھ ہی بناتے ہیں اور خطاطی بھی تو ہاتھ ہی کرتے ہیں۔بس کیا تھا۔ ادب سے سلام کیا پھر کلام کیا کہ میں آپ کی شاگردی اختیار کرنا چاہتا ہوں ۔انھوںنے پڑھائی لکھائی کے بارے میں پوچھا۔ شاید ا ن دنوں سکول کی تین مہینوں کی چھٹیاں تھیں۔ استاد کو خدا غریق ِ رحمت کرے ینگ ایج میں کینسر کے ہاتھوں گئے۔خود بھی شاعری کا شوق فرماتے اور غزلیں گانے کا چسکابھی حاصل تھا۔ہمارے پرانے دوست سعید پارس کے ہمدمِ دیرینہ تھے۔پھر بعد میں جلد ہی ہماری سیلانی طبیعت بلکہ سیلابی طبیعت کے ہاتھوں وہ پرانے پرائمری سکولوں کی تختی پر لکھنے کی مشق کرنے والا وہ قلم خود ہی چھوٹ گیا۔پھر طبیعت مشاعروں کی طرف مائل ہو گئی۔ وہاں ہر ایک کواستاد بنانے لگا۔یہ شاید خطاطی چھوڑدینے کا برا اثرہو کہ اب تک ہماری لکھائی درست نہ ہو سکی۔ جب اپنا ہی لکھا ہوا دو دن بعد پڑھ نہ سکیں تو اس آدمی سے زیادہ قابلِ رحم کون ہوگا۔کتنے ہی کالم تو اس وجہ سے ہمارے ہاتھوں کبوتر کی طرح اڑ گئے کہ جن کے پوائنٹ راہ چلتے ہوئے جلدی سے جیب میں سے کاغذ پینسل نکال کر نوٹ کئے تو دو دنوں بعد جیب میں اور سامان کی آپس میں کشاکش سے نہ صرف پینسل کا لکھا مٹ جاتا بلکہ لکھا ہوا سمجھ بھی کہا ں آتا۔اب تک یہی کیفیت ہے‘ پین سے بھی لکھ لوں تو بعد میں سر جھٹکتارہتا ہوں کہ یار یہ کیا لکھا ہے یہ کیا لکھ دیا ہے ۔