پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے چھٹے سیزن کی تیاریاں جاری ہیں جس کےلئے غیرملکی کھلاڑیوں کے انتخاب کا مرحلہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے تاہم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں شہرت رکھنے والے کرکٹرز جب پاکستان سے منسوب مقابلوں کےلئے میدان میں اتریں گے اور یہ میدان کورونا وبا کی وجہ سے شائقین سے خالی ہوں گے تو ایسے میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ اپنی روایتی چمک دمک کس طرح دکھا پائے گی! اب تک بنا شائقین کھیل کے جس قدر مقابلوں کا انعقاد بھی ہوا ہے اور جنہیں پورے اہتمام کے ساتھ ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر بھی کیا گیا لیکن اُن میں شائقین کرکٹ کی دلچسپی کم ترین رہی۔ کورونا وبا کی وجہ سے کھیلوں کے عالمی مقابلوں کی طرح کرکٹ بھی متاثر ہے اور پاکستان سپر لیگ بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کی طرح چھٹا ایڈیشن بھی مکمل طور پر پاکستانی میدانوں میں سجنے والا ہے لیکن پاکستانی شائقین کا سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا وہ اپنے پسندیدہ کرکٹرز کو میدان میں جاکر دیکھ سکیں گے؟ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے اگرچہ کہا ہے کہ وہ شائقین کو سٹیڈیم میں میچز دیکھنے کے معاملے پر حکومت سے بات کریں گے لیکن اگر یہ اجازت نہیں ملتی تو شائقین کےلئے اِس سے بڑی مایوسی کیا ہوگی کہ وہ کھلاڑیوں کو اپنے سامنے کھیلتا نہیں دیکھ سکیں گے جو پہلی بار پاکستان میں ایکشن میں نظر آئیں گے۔ سپر لیگ میں حصہ لینے والے کرکٹرز میں بیشتر اس سے قبل بھی پاکستان میں کھیل چکے ہیں تاہم کچھ کھلاڑی ایسے ہیں جو پہلی بار پاکستان سپر لیگ کے میچز پاکستان میں کھیلیں گے اور شائقین کےلئے انہی میں کشش نظر آرہی ہے۔ سب سے قابل ذکر نام ویسٹ انڈیز کے کرس گیل کا ہے جنہیں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پلاٹینم کیٹگری میں حاصل کیا ہے۔ کرس گیل اس سے قبل پاکستان سپر لیگ میں اسلام آباد یوناٹیڈ‘ کراچی کنگز‘ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور لاہور قلندرز کی نمائندگی کرچکے ہیں لیکن انہوں نے ان ٹیموں کی طرف سے تمام میچز متحدہ عرب امارات میں کھیلے اور ان تمام ٹیموں کی طرف سے کھیلتے ہوئے وہ کوئی قابل ذکر بلے بازی نہیں دکھا سکے‘ جس کے لئے وہ شہرت رکھتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چودہ میچوں میں وہ صرف ایک نصف سنچری بنانے میں کامیاب ہو پائے تھے۔ کرس گیل ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں چار سو سے زائد میچ کھیل چکے ہیں اوربائیس سنچریوں کی مدد سے تیرہ ہزار سے زیادہ رنز بناچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کرس گیل کے چھکوں کی تعداد ایک ہزار کو عبور کرچکی ہے۔ گیل کے علاوہ افغانستان کے راشد خان‘ مجیب الرحمان اور قیس بھی پہلی بار پی ایس ایل پاکستان میں کھیلیں گے۔ راشد خان اس بار پی ایس ایل میں مکمل طور پر دستیاب نہیں ہوں گے کیونکہ فروری اور مارچ میں افغانستان کی ٹیم زمبابوے کے دورے پر ہو گی جہاں اسے ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے ہیں۔ اگر کورونا وبا کی وجہ سے یہ دورہ ممکن نہیں ہوتا تو پھر راشد خان پی ایس ایل کے تمام میچوں میں لاہور قلندرز کو دستیاب ہوں گے۔ افغانستان کے انیس سالہ آف اسپنر مجیب الرحمان بھی اس وقت ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں اپنی عمدہ کارکردگی کی وجہ سے شہ سرخیوں میں ہیں۔ گذشتہ سال بگ بیش‘ کیریبئن لیگ اور آئی پی ایل میں حصہ لیتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں مجموعی طور پر اُنہوں نے سینتیس وکٹیں حاصل کی تھیں۔ ٹی ٹوئنٹی میں گذشتہ سال کے تین کامیاب بولرز حارث رو¿ف‘ شاہین شاہ آفریدی اور راشد خان اس بار ایک ہی ٹیم لاہور قلندرز میں شامل ہیں۔ حارث گذشتہ سال ٹی ٹوئٹی مقابلوں میںستاون وکٹیں حاصل کرکے سرفہرست رہے تھے۔ پاکستان سپر لیگ میں آئی پی ایل کی طرح کھلاڑیوں کی نیلامی نہیں ہوتی بلکہ ہر کیٹگری میں کھلاڑیوں کا معاوضہ مقرر ہوتا ہے۔ اس بار پاکستان سپر لیگ کی مجموعی رقم میں کمی ہوئی ہے اور اب یہ ایک اعشاریہ ایک ملین ڈالرز سے کم ہو کر نو لاکھ پچاس ہزار ڈالرز ہو گئی ہے۔ اس مرتبہ پلاٹینم کیٹگری میں شامل تین کرکٹرز میں سے دو کو ایک لاکھ ستر ہزار ڈالرز ملیں گے جبکہ تیسرے کرکٹر کو ایک لاکھ تیس ہزار ڈالرز ملیں گے۔ ڈائمنڈ کیٹگری میں شامل تین کرکٹرز میں سے ایک کو پچاسی ہزار ڈالرز اور بقیہ دو کو ساٹھ ساٹھ ہزار ڈالرز ملیں گے اسی طرح گولڈ کیٹگری میں شامل تین کرکٹرز میں سے ایک کو پچاس ہزار ڈالرز اور بقیہ دو کو چالیس چالیس ہزار ڈالرز دیئے جائیں گے۔ ملکی تاریخ کے اِس مہنگے ترین ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں شائقین کرکٹ کو بھی شامل کر لیا جائے اُور کورونا وبا سے متعلق قواعد پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے تو اِس سے ’پی ایس ایل مقابلوں‘ کی ایک نئی تاریخ رقم ہونے کے ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ کی بحالی میں بھی گرانقدر پیشرفت عملاً ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ پی ایس ایل میں عموماً کھلاڑیوں کی کارکردگی کو دیکھا جاتا ہے لیکن اِس مرتبہ نظریں کرکٹ سے متعلق قومی فیصلہ سازوں پر لگی ہوئی ہیں جن کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔