دنیا کے بلند ترین ٹاورز

 نیویارک کا مشہور ترین علاقہ مین ہٹن تھا جو امریکہ کی معیشت کا گڑھ تھا۔ فنانشل گرمیوں کا بہت بڑا مرکز تھا اور دولت و حشمت کے تمام گر اور پیچ و تاب یہی آزمائے جاتے تھے جی یہاں ورلڈ ٹریڈ سنٹر تھا۔ جہاں دنیا بھر کی دولت کی تجارت ہوتی تھی۔ اونچی عمارتوں کا طویل سلسلہ مجھے نظر آرہا تھا۔ پانچ عمارتیں کم منزلہ تھیں اور دو عمارتیں بہت اونچی تھیں۔ اونچی عمارتیں ٹوئن ٹاورز کہلاتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے ایسے زاویے پر بنے ہوئے تھے کہ عجب شان اور خوبصورتی پیدا کرکے دونوںہی صاف نظر آتے۔ گول دائرے کے مرکز میں تمام عمارتیں موجود تھیں۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دونوں ٹاورز نارتھ ٹاور اور ساﺅتھ ٹاور کہلاتے تھے۔ نارتھ ٹاور1368 فٹ یعنی417 میٹر اونچا تھا اور دوسراٹاور1362فٹ یا 415 میٹر اونچا تھا اور اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ اونچے ٹاور کہلائے جاتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان ٹاورز سمیت سات عمارتوں کو اپریل1973ءمیں کھولا گیا تھا اور ان کی تعمیر میں ملین ڈالرز کا خرچہ ہوا تھا۔ ٹوئن ٹاور کے اردگرد والی پانچ عمارتیں میریٹ ورلڈ سنٹر کہلاتی تھیں۔ ٹاورز کے نیچے ایک بڑا فوارہ اور کچھ سبز سا علاقہ تھا جہاں ہم نے ایسے زاویوں سے تصاویر لیں کہ ٹاور کے ساتھ ہماری یہ یادگار تصاویرہمیشہ نیویارک کی یاد دلاتی ر ہیں۔ میرے میزبان بتا رہے تھے کہ 1975ءمیں یہاں آگ لگ گئی تھی۔ 1993ءمیں ان ٹاورز کے قریب بم کا دھماکہ ہوا تھا اور جنوری 1998ءمیں یہاں موجود ایک بڑے بنک میں ڈکیتی کی واردات ہوتی تھی اور 1998ءمیں ہی حکومت نیویارک نے فیصلہ کیا کہ ان ٹاورز اور ملحقہ عمارتوں کو پرائیویٹ کمپنی کو لیز پر دے دیں۔ دو تین سال کے غور وخوض کے بعد جولائی 2001ءمیں اس کو لیز کردیاگیا اور بدقسمتی سے ستمبر 2001ءمیں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ٹوئن ٹاورز میں ایسا دھماکہ ہوا جس کو دہشت گردی سے جوڑا گیا اور پھر اس تباہی کے ساتھ ہی نیویارک کے ساتھ ساتھ تمام دنیا بھی تبدیل ہوکر رہ گئی اب آج کی تاریخ میں یہ ٹوئن ٹاورز اس حالت میں نہیں ہیں جیسے بہت سے دوسرے سیاحوں کی طرح میں نے بھی دیکھا تھا۔ 2001ءکے بعد میں نیویارک تو ضرور گئی ہوں لیکن ٹریڈ سنٹر کبھی نہیں گئی۔ اب بھی اپنی پرانی تصاویر میں ٹوئن ٹاور پس منظر میں دکھائی دیتے ہیں۔ تو نیویارک کی حیرت انگیز اونچی عمارتیں یاد آتی ہیں۔ اگر دنیا میں کسی شہر کے بارے میں یہ کہا جاتے کہ اس کی بلند ترین عمارتوں کو دیکھتے ہوئے انسان کی ٹوپی گر جاتی ہے اور گردن مڑ جاتی ہے تو وہ نیویارک ہوگا۔ ایسی قدیم اور بلند عمارتیں کہ گردن پوری طرح بل کھا کر انسان کو گرانے والی حالت میں لے آتی ہے اور یہ عمارتیں قطار در قطار بنی ہوئی ہیں۔ کوئی عمارت ذرا کم اونچی ہے اور کوئی زیادہ اونچی لیکن پاکستان جیسے ملک سے نکل کر سیدھے نیویارک پہنچ جائیں تو ان عمارتوں کو دیکھ کر یہاں کی ترقی اور تیز رفتاری دیکھ کر سٹی گم ہوجاتی ہے۔ یورپ، امریکہ، کینیڈا اور روس کی بھی چند ایسی گلیاں ہیں جہاں سیاح سارا سارن دن گھوم پھر کر گزارتے ہیں اور سیاحت سے لطف اندوز ہوتے ہیں جس طرح مال روڈ ارباب روڈ، مری روڈ، مینا بازار، موتی بازار، گورا بازار ایسی مرکز نگاہ گلیاں اور بازار پاکستان میں بھی موجود ہیں کہ جہاں لوگ خرید و فروخت کرتے ہیں۔ گھومتے پھرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ نیویارک کی ایک ایسی ہی گلی کا نام جیکسن ہائیٹ ہے۔ جیکسن ہائیٹ غیر امریکیوں کا گڑھ ہے یا آپ اس کو امیگرینٹ کا مرکز بھی کہہ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں پہلے پہل یعنی انیسویں صدی کے وسط میں چین سے ایک شخص اہکن نیویارک آیا تھا اور اس نے یہاں سگار بیچنے کی چھوٹی سی دوکان کھولی تھی اور تین سینٹ کا سگار بیچا کرتا تھا اس کے ساتھ ہی لیمپ نما لائٹر بھی دیا کرتا تھا اور امریکی اس سگار کو خرید کر پینے کے ایسے شوقین ہوتے چلے گئے کہ اس کا کاروبار چمکنے لگا۔ اب چائنا سے جو شخص بھی امریکہ آتا ہ آہکنسگار لانے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا۔ رفتہ رفتہ اس نے یہاں ایک عمارت بنالی اور چین سے آنے والے لوگوں کو کمرے بھی کرائے پر دیتا تھا۔ ایک انگریز مصنف اپنی بائیو گرافی میں لکھتا ہے کہ چین کے لوگ امریکہ آکر سیدھے کیلیفورنیا جاتے تھے تاکہ سونے کے پہاڑوں کو تلاش کرسکیں لیکن نیویارک کے اس علاقے میں آھکن صرف سگار انڈسٹری کو ترقی دے رہا تھا۔ جیکسن ہائیٹ دراصل جان سی جیکسن کے نام پر مشہور ہونے والی جگہ ہے جس نے اس جگہ ایکڑوں کے حساب سے خالی زمین خرید کر گارڈن اپارٹمنٹس اور گارڈن ہومز بنائے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے امیگریشن لینے والے غیر ملکی لوگوں سے یہ جگہ بھرتی ہی چلی گئی۔ سب سے پہلے یہاںسپین سے آنے والے لوگوں نے مارکیٹ بنائی اور آہستہ آہستہ دنیا کے ہر ملک کا رہائشی یہاں چھوٹا بڑا کاروبار کرنے کا خواہشمند ہوگیا میں نے جیکسن ہائیٹ میں کتنی ہی اشیاءکی خریداری کی۔ آزادی کے مجسمے کے سوینئر سے لے کر کپڑے اور آرائشی اشیاءاور نہ جانے کیا کیا خرید ڈالا۔ جیکسن ہائیٹ پر ایشیائی باشندے کثیر تعداد میں نظر آتے ہیں۔ خصوصاً73-72 اور 74 نمبر کی گلیاں تو چھوٹا پاکستان چھوٹا ہندوستان اور چھوٹا بنگلہ دیش کے نام سے مشہور ہیں لیکن اس علاقے میں کولمبیا اور میکسیکو کے لوگوں کی بے پناہ اکثریت ہے۔ کہا جاتاہے کہ سفید پوش امیگرنٹس جیکسن ہائیٹ پر اتنا کاروبار کریتے ہیں کہ اپنے خاندانوں کی پرورش کرسکیں۔ ان گلیوں میں گھوم پھرکر اپنے براﺅن ایشیائی بھائی بہن زیادہ نظر آئے کہ ایسا لگا میں تو پاکستان کی گلیوں میں گھوم رہی ہوں۔