گردشی قرض: غیریقینی صورتحال

 توانائی کے شعبے سے جڑے مسائل کی شدت میں اضافے کا باعث ’گردشی قرض‘ ہے جس سے متعلق ’کابینہ کمیٹی برائے توانائی‘ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق نومبر 2020ءتک پاکستان میں پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کا حجم 2306ارب (یعنی 2 کھرب) روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اِس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ گردشی قرض میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ گردشی قرض کے اسباب اور اِس میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں بجلی کی چوری‘ واجبات کی بروقت ادائیگی نہ ہونا اور توانائی کے شعبے میں نجی شعبے کی ناقص کارکردگی جیسے عوامل (خرابیوں) کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بجلی کا پیداواری شعبہ گذشتہ تیرہ برس سے گردشی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ سال 2008ءمیں ان قرضوں کا حجم ساڑھے چھ ہزار ارب روپے تھا‘ جو پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے آخری مالی سال تک بڑھ کر ساڑھے تیرہ ہزار ارب روپے تک جا پہنچا تھا تاہم مسلم لیگ نواز کی حکومت کے دوران اس مسئلے سے نمٹا گیا اور موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کے برسراقتدار آنے سے چند ماہ پہلے یعنی جون 2018ءمیں توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ 1148ارب روپے تھا تاہم موجودہ حکومت کے پہلے دو برس کے دوران(نومبر2018ءسے نومبر 2020ئ) کے دوران یہ قرضہ ایک مرتبہ پھر بڑھ کر 2300 ارب سے تجاوز کر چکے ہیں! لمحہ فکریہ ہے کہ ہر دور حکومت گردشی قرضوں کی بات کی جاتی ہے لیکن اس مسئلے کے مستقل حل کےلئے واضح پالیسی وضع نہیں کی جاتی۔ کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے حالیہ اجلاس کو بتایا گیا کہ ”گردشی قرضے میں 156 ارب کا اضافہ بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کو بروقت پیسے ادا نہ کرنے‘ بجٹ میں شامل ہونے والے اخراجات اور کے الیکٹرک کی طرف سے ادائیگیاں نہ ہونے کے وجہ سے ہوئے ہیں۔“ جبکہ اِس اضافے کی ایک وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور دوسری وجہ کورونا وبا ہے۔ تحریک انصاف حکومت کے پہلے 2 برس میں شرح سود بلند ہونے کی وجہ سے بھی گردشی قرضے میں اضافہ ہوا جو اپنی جگہ ایک محرک ہے اور اگر درآمدات کا موازنہ روپے سے کیا جائے تو اس میں بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ بیرونی ممالک سے تیل کی درآمدات کا اثر بھی گردشی قرضوں پر پڑتا ہے۔ اِن سبھی محرکات کے سبب گردشی قرض اور معیشت کو خسارہ ہر دن بڑھ رہا ہے۔پاکستان کئی طرح کے قرضوں میں جھکڑا ہوا ہے۔ ایک قسم کا قرض بجلی کی ملکی و غیرملکی پیداواری کمپنیوں کا ہے جو 2306 ارب روپے ہے اور درحقیقت یہ واجبات ہیں جنہیں قرض کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ اِس گردشی قرضے کی مد میں موجودہ واجبات ہر ماہ بڑھ رہے ہیں جبکہ اِس اضافے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جس کےلئے چند اصلاحات پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں بھی زیرغور آئیں جیسا کہ ’جو بجلی کے صارفین کے ذمے واجبات کی وصولی جو سال دوہزاربیس میں 88فیصد رہی‘ اُسے بڑھا کر سوفیصد تک لے جایا جائے۔ ایسا کرنے سے گردشی قرض میں ایک سوساٹھ ارب روپے کمی ہوسکتی ہے۔ اِسی طرح ٹیکنالوجی کا استعمال‘ بجلی کی قیمت کا بروقت تعین‘ ایندھن کے اخراجات کا ماہانہ اجرائ‘ سالانہ ٹیرف کا بروقت اجراءبھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور ان تینوں کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری کسی حکومتی نگران ادارے جیسا کہ نیپرا کو دے دی جائے۔ ’گردشی قرض کا ماہانہ اضافہ کم کرنے کا سب سے اہم طریقہ سمارٹ میٹر پر عملدرآمد کرانا ہے۔ قومی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کےلئے جہاں اہلیت کے حامل نگرانوں کی تعیناتی ضروری ہے وہیں قومی فیصلوں میں بھی مصلحت کی بجائے اہلیت کو پیش نظر رکھنا یکساں اہم ہے۔ تحریک اِنصاف کےلئے اِدارہ جاتی نظام کی اصلاح اور اِس مقصد کےلئے کارکردگی کا احتساب ترجیحات کا حصہ ہونا چاہئے۔