امریکہ افغانستان میں کیوں ناکام ہے؟

 باراک اوباما جنوری 2009 میں امریکہ کے صدر بنے اور انہوں نے اپنے مشیروں اور جرنیلوں کے مشورے پر مارچ میں21 ہزاراور دسمبر میں مزید 30 ہزار فوج وہاں بھیجی۔ اس طرح افغانستان میں امریکی فوجیوں کی کل تعداد ایک لاکھ ہو گئی۔ 2009 اور 2012 کے درمیان امریکی فوجیوں کے ایک ہزارپانچ سو سے زیادہ اہلکار ہلاک اور پندرہ ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ انیس سال کی پوری جنگ کے مقابلے میں سب سے زیادہ امریکی ہلاکتیں ہیں۔ اس دوران امریکہ افغانستان میں ہر سال تقریبا 110 بلین ڈالر خرچ کر رہا تھا جو تعلیم پر سالانہ امریکی وفاقی اخراجات سے تقریبا پچاس فیصد زیادہ ہے۔ امریکی حکومت صرف فوج بڑھانے اور کم کرنے میں لگی رہی مگر مسئلہ تو کچھ اور تھا۔ بش دور میں امریکی فوجی کم تھے تو نقصان بھی کم تھا۔ اوبامہ دور میں فوج بڑھی تو جانی و مالی نقصان بھی زیادہ ہوا۔اس دوران 2015 تک افغانستان میں صرف9800 امریکی فوجی باقی رہ گئے تھے۔ مگر اس موسم خزاں میں طالبان نے منظم کاروائیوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا جو جنگ کے فیصلہ کن واقعات بن گئے۔ 2015 اور 2016 میں تقریباً 14000 افغان فوجی اور پولیس جوان جاں بحق ہوگئے۔ جولائی 2015 میں اوبامہ نے فوج میں کمی پھر معطل کردی۔ 2017 تک اشرف غنی کی سربراہی میں افغان حکومت پہلے سے کہیں زیادہ کمزور تھی۔ ٹرمپ آئے تو انہوں نے2018 میں طالبان سے باالآخر مذاکرات شروع کردئیے۔ پھر 2019 میں معطل کردئیے اور پھر فروری 2020ءمیں ان سے معاہدہ کرلیا مگر بین الافغان معاہدہ ابھی تک نہیں ہوا۔ صدر ٹرمپ بغیر کسی بین الافغان معاہدے کے جون2021ءتک امریکی فوج افغانستان سے نکالنا چاہتے تھے۔ ایسا ہونا افغانستان، پاکستان اور خطے سب کے مفاد میں نہیں۔ جب تک بین الاافغان امن معاہدہ نہیں ہوتا اور افغان افواج پورے ملک کو محفوظ رکھنے کی قابل نہیں ہوجاتیں یہاں غیرملکی افواج موجود رہنی چاہئیں ورنہ افغانستان پھر خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔افغانستان کو جنگ میں دھکیلنے کے بعد بش اور اس کی ٹیم نے افغان سکیورٹی فورسز کی تعمیر میں بہت سستی دکھائی۔ ابتدا میں انہوں نے ایک چھوٹی سی قومی فوج کی تعمیر اور مالی اعانت کا وعدہ کیا لیکن اس دوران بھرتی اور تربیت سست رفتاری کےساتھ جاری رہی۔حیران کن طورپر ابامہ دور میں پھر فیصلہ ہوا کہ2011 کے وسط میں افغانستان سے امریکی دستوں کا انخلاءشروع کیا جائے اور آخر کار اس ملک کی سلامتی کی پوری ذمہ داری افغان حکومت کے حوالے کردی جائے۔ 2015 میں ایک سروے کے مطابق 89 فیصد افغان فوجی اور پولیس اہلکار طالبان سے لڑنے کےلئے نہیں بلکہ تنخواہ حاصل کرنے کےلئے شامل ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے فیصلہ کن لمحوں میں افغان سکیورٹی فورسز اپنی عددی برتری اور مساوی گولہ بارود اور رسد کے باوجود مقابلہ کرنےکی بجائے پیچھے ہٹ گئیں۔پھر افغان حکومت اور اسکے جنگجو اتحادی اکثر بدعنوان تھے۔ انہوں نے افغانیوں کے ساتھ خراب سلوک کیا اور یوں امریکہ کےخلاف مزاحمت کو تقویت دی۔ انہوں نے زمینیں ہتھیائیں، سرکاری ملازمتوں کی بندربانٹ کی اور اکثر امریکی سپیشل آپریشن فورسز کو اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کےلئے استعمال کیا۔امریکہ طالبان کے بعد قائم افغان حکومتوں اور امریکی قبضے کے بعد ہونےوالی بدعنوانی اور افغان انتظامیہ پر بدنام عہدے داروں کو عہدوں سے ہٹانے، اصلاحات سے امریکی امداد کو مشروط کرنے، خصوصی کاروائیاں اور چھاپوںکو کم کرنے اور بے گناہ افغانوں کو غلط نشانہ بنانے جیسی شکایات کو دور کرنے کےلئے زیادہ سے زیادہ کام کر سکتا تھا تاہم بدعنوانی اور گلے شکووں کے سدباب کےلئے کوئی جامع منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ امریکی صدور اور جرنیلوں نے بار بار اپنے منصوبوں کو ناکام ہوتے دیکھا جب حالات ان کے توقع کےخلاف نکلے۔ اگر امریکی رہنماو¿ں نے مختلف طریقوں پر زیادہ سوچ لیا ہوتا جن سے معاملات ٹھیک ہوسکتے تھے یعنی افغانستان پر حملے کو غلطی ماننا، افغانستان کی خودمختاری اور عوام کی حق حکومت سازی کا احترام کرنا، طالبان کو انگیج کرنا ، بین الافغان تصفیہ کےلئے کوشش کرنا ، افغانستان کے پڑوسیوں اور مقامی و بین الاقوامی طاقتوں کو افغان مسئلے کے حل کےلئے ساتھ لینا، پاکستان کے تحفظات کا خیال رکھنا، افغانستان کی بحالی و تعمیر نو کےلئے زیادہ وسائل مختص کرنا اور وہاں بدعنوانی اور طاقت کے استعمال پر جواب دہی کا بندوبست کرنا توشاید امریکہ اور افغانستان نے ایک کم قیمت اور کم پرتشدد جنگ کا سامنا کیا ہوتا۔ امریکی رہنماو¿ں نے امریکی عوام کو گمراہ کیا، ترجیحی نتائج پر توجہ مرکوزکی اور ناکامی کے اسباب جان بوجھ کر نظرانداز کیے۔ امید ہے سب افغان گروہ باہمی رضامندی سے افغانستان کو ایک ذمہ دار پرامن ملک بنانے کی سعی کرینگے اور دوسرے ممالک بھی اس کی آزادی اور سالمیت کا احترام کرینگے۔