تعلیم کا بنیادی مقصد اگر کسی بھی وجہ سے ’شخصیت سازی‘ نہیں تو اِس پورے عمل کا حاصل وصول عملی زندگی میں بے راہ روی کی صورت ظاہر ہو گا جیسا کہ قومی سطح پر اُبھرنے والا وہ عمومی منظرنامہ ہے کہ اکثر تعلیم یافتہ نوجوانوں کا طرزعمل‘ اُن کی ترجیحات اُور پسندیدگی میں انفرادیت نہیں پائی جاتی اور یہی وہ نکتہ (مرحلہ¿ فکر) ہے جہاں تعلیم کو عملی زندگی سے مربوط اور تعمیری خصوصیات کو ابھارنے کے لئے بروئے کار لانا ہے۔ اِس سلسلے میں ہزارہ یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی ایک کوشش قومی و عالمی ذرائع ابلاغ کے ساتھ سوشل میڈیا پر زیربحث ہے جس میں جاری موسم سرما کی تعطیلات کے اختتام کے بعد تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے لباس کی تراش خراش اُور ظاہری حلیے کا خاص خیال رکھنے سے متعلق ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ اصولاً اِس قسم کی ہدایات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جاری کرنی چاہیئں لیکن ایسا اِس لئے نہیں ہو سکا کہ آج تک تعلیم پر تو بہت زیادہ بات کی جاتی ہے‘ سالانہ اربوں روپے بھی مختص کئے جاتے ہیں لیکن اِس تعلیم سے حاصل ہونے والے نتائج پر غور نہیں کیا جاتا کہ آخر یہ کسی ’مادر پدر آزاد‘ تعلیم ہے کہ جو نہ تو لباس سے اُور نہ ہی کلام سے ظاہر ہو رہی ہے۔ہزارہ یونیورسٹی کی جانب سے زیرتعلیم طلبا (لڑکوں)‘ طالبات (لڑکیوں) اور اساتذہ کے لئے لباس و حلیے سے متعلق ہدایات (ڈریس کوڈ) کسی بھی صورت غیرمنطقی‘ بلاضرورت یا قواعد کی خلاف ورزی نہیں بلکہ یہ بات جامعات سمیت جملہ تعلیمی اداروں کے قواعد میں شامل ہوتی ہے‘ جسے جامع بنانے کی ضرورت ہے کہ تعلیمی ادارے خود کو درس و تدریس کی کتب (نصاب تعلیم) اَزبر کروانے کی حد تک نہیں بلکہ اپنے وسیع و معنوی کردار کا احساس کریں۔ قواعد کی رو سے طالبات کو چست کپڑے (بشمول جینز اور ٹائٹس) پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چست کپڑے وہ ہوتے ہیں جن میں جسم کے قدرتی ابھار اور وضع قطع ظاہر یا نمایاں ہو جبکہ لباس کا مقصد اِسے چھپانا ہوتا ہے۔ اِسی طرح طالبات کو زیادہ میک اپ اور زیورات پہننے سے بھی منع کیا گیا ہے جبکہ طلبہ کے لئے بھی مختصر لباس جیسا کہ شارٹس‘ کانوں میں بالیاں‘ پاو¿ں میں ہوائی چپل یا سینڈل نہ پہننے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ طالبات کو صرف مخصوص رنگ کے عبایا‘ دوپٹے اور سکارف پہننے کی اجازت ہو گی جبکہ طلبہ کو صرف پینٹ شرٹ اور قمیض شلوار پہننے کی اجازت ہو گی۔ ڈریس کوڈ نافذ کرنے کا یہ مقصد اپنی جگہ اہم ہے کہ آمدنی کے لحاظ سے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ میں ہم آہنگی پیدا ہو اور کم آمدنی رکھنے والے گھرانوں سے آنے والے طلبہ فیشن ایبل ہم جماعتوں کو دیکھ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ ہزارہ یونیورسٹی کی انتظامیہ مبارکباد کے لائق ہے جس نے تعلیم کے ساتھ اخلاقیات کے سبق سکھانے کو بھی اہمیت دی ہے لیکن اِس اقدام کی مخالفت کرنے والے جس انداز میں اِسے مذہبی رنگ دے رہے ہیں وہ غیرمناسب ہے۔ یونیورسٹی میں زیرتعلیم طلبہ کو بالغ قرار دیکر ہر قسم کی آزادی دینا اور اُنہیں لباس کی اہمیت و اِس سے جڑے اخلاقیات کی تعلیم اگر اداروں کے اندر نہیں دی جائے گی تو نوجوان نسل مذہبی اور مشرقی آداب کہاں سے سکھیں گے؟پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ زیربحث یا سننے میں نہیں آ رہا کہ کسی یونیورسٹی کی جانب سے ڈریس کوڈ کا اعلان کیا گیا ہو۔ اس سے قبل اسلام آباد کی بحریہ‘ محمد علی جناح اور نسٹ یونیورسٹی کی جانب سے بھی ڈریس کوڈ کا اطلاق کیا گیا‘ جس میں طالبات پر ٹائٹس اور جینز کے ساتھ چھوٹی شرٹ پہننے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ جامعات کو ریگیولیٹ کرنے والے ادارے ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے قواعد کی رو سے ہر یونیورسٹی اس معاملے میں خود مختار ہے کہ وہ نظم و ضبط قائم کرنے کےلئے اپنی مرضی کا ڈریس کوڈ یا دیگر قواعد بنائے اور اُنہیں لاگو کرے۔ ’ایچ ای سی‘ کا کام جامعات کو مالی وسائل فراہم کرنا اور اس کی نصابی سرگرمیوں کو نظم و ضبط کا پابند رکھنا ہے۔ اس کے علاوہ ہر یونیورسٹی اپنی جگہ فیصلہ سازی میں آزاد اور خودمختار ادارہ ہے‘ وہ اپنی مرضی کا ڈریس کوڈ لاگو کر سکتی ہے۔جامعات میں زیرتعلیم طلبہ کے مسائل بھی لائق توجہ ہیں اور صرف ڈریس کوڈ لاگو کرنے سے اُن کو تمام درپیش مشکلات حل نہیں ہو سکتیں۔ مثال کے طور پر طلبہ کی اکثریت ٹیوشن فیسوں میں اضافے اور اِن کی شرح کے بارے میں تحفظات و شکایات رکھتی ہے۔ اِسی طرح رہائش کےلئے ہاسٹل اور اِن ہاسٹلز میں قیام و طعام کے معیار کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کئی جامعات ایسی بھی ہیں جن کی طالبات نے اساتذہ پر جنسی ہراسگی کا الزام عائد کیا اور اِس قسم کے الزامات ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی کئی بار لگائے گئے ہیں۔ بنیادی اور اہم بات یہ ہے کہ اگر جامعات میں طلبہ کی اخلاقی تربیت کے ساتھ طبقاتی امتیازات کم کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے تو یکساں اہم یہ بھی ہے کہ طلبا و طالبات کے مسائل‘ تحفظات اور اُن کو درپیش مشکلات کے بارے میں بھی سوچ بچار ہونی چاہئے۔ فیصلہ ساز متوجہ ہوں کہ تعلیم (درس و تدریس) کے عمل کو معنوی و مقصدیت سے قریب کرنا بھی یکساں ضروری ہے۔