کیا کریں کیا نہ کریں۔

جیسے سائیکل چلانے والے کو موٹر سائیکل پر بٹھا دیں‘جیسے بائیک رائیڈر کو چار پہیوں والی بڑی گاڑی حوالے کردیں۔اسی طرح آج کل بچوں کے ہاتھ میںموبائل آگیا ہے ۔ جانے اب کیا ہواچھا ہو تاہے یا برا یہ بچوں کے والدین تک کومعلوم نہیں۔ کیونکہ وہ تو بچوں کو ان کی اچھے کی خاطر ہاتھ میں موبائل تھما دیتے ہیں ۔یہ تو اب بچوں کا کام ہے کہ اس شیطانی چرخے سے کیاکام لیتے ہیں۔بجلی کی تاریں ہیں تو ان پر خول چڑھا کر ان سے آدمی اپنے لئے سہولت حاصل کرتا ہے ۔مگر یہی تاریں اگر ننگی ہوںاور پورے کارپورچ سے ٹی وی لاﺅنج تک او رڈرائنگ روم سے بیڈ روم اور واش روم تک دوڑتی پھرتی ہوں تو گھر کے کسی فرد کا ان کے نرغے میں آجانا کوئی انوکھاکام نہیں ہو گا ہمارے بچوں کو تربیت حاصل نہیںہے ۔بغیر تربیت کے کسی ڈرائیور کو ڈیکوٹا جہاز چلانے پر رکھ لیں تو اسکا پہلا فضائی چکر اس کا آخری زمینی چکربن جائےگا۔خدا کی پناہ اتنے سے بچے ہیں کہ جن کو بات تک کرنانہیں آتا۔ پاپا بھی مشکل سے کہتے ہیں او ر مما کا لفظ بھی تاخیر سے ادا کر پاتے ہیں مگر وہ موبائل سے اپنی پسند کا کارٹون لگا کراس کو انجوائے کرتے ہاتھوں میں موبائل تھام کر گھومتے ہیں۔ بعض بچیوں کے شوق کو دیکھ کران کی ماں کی ضد پر ان کے باپ نے انھیں مہنگے موبائل لے کر دیئے ہیں۔ اب نویں کلاس کی بچی چھوٹی بہن کو پہلو میں لئے صحن کے ایک کمرے میں سٹوڈیو بنا کر وہاں دبا دب ٹک ٹاک بنا رہی ہے ۔یہ ٹک ٹاکر بہنیں ایک گھر کی داستان نہیں یہ تو ہر آٹھویں گھر کی کہانی ہے ۔نہ تو انھوں نے کوئی ڈکشنری ڈا¶ن لوڈ کر رکھی ہے ۔ ہر چند کہ انگریزی کی نہ سہی ۔اردو کی لغت کا آئیکن بھی تو ان کے موبائل کے ڈیسک ٹاپ پر موجود نہیں ۔موویاں بن رہی ہیں اور دے مار سہیلیوں کو وٹس ایپ ہو رہی ہیں ایسے میںاگرکوئی کلپ سلپ ہو جائے یا کوئی شرارت سے اس کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دے تو بعد میں سیاپے ہوں گے کہ ہمارا ٹک ٹاک کس نے وائرل کیا ۔ مگر خود ابو امی بھی تو اس چیز سے بیگانہ ہیں وہ ٹاک ٹاک دیکھ کر بچیوں کو اور لڑکوں کو داد دیتے ہیں۔ مگر لڑکے لڑکیاں کہیں نادانی میں اپنے دوستوں کےساتھ شیئر کر دیتے ہیں وہاںسے فیس بک سے ہوتے ہوئے جانے کس کس ویب سائٹ پر یہ حرکت کرتی ہوئی محض تفریح کےلئے بنائی گئی ایک منٹ کی مووی غیروں کے ہاتھ لگ جاتی ہے۔ پھر پورے خاندان روناپیٹنا پڑ جاتا ہے ۔اصل میں اس میں نہ تو اماں باوا کاقصور ہے نہ ان نادان بچہ لوگوں کا دوش ہے ۔یہ تو زمانے کی ہوا ہے کہ جس رخ پر چل پڑے۔ اب تو یہ ہورہا ہے پھر ایک آدھ سال تک وہ ہوگا پھر وہ وہ ہوگاکہ دنیا دیکھے گی۔بچوں کی نظریں الگ خراب ہوتی ہیں وہاں یہ سوچ کر ہم چپ ہو جاتے ہیں کہ چلو اس طرح ہم اور ہمارے بچے نئے زمانے کے مطابق چل رہے ہیں۔مگر کمال یہ ہے کہ ہم اس وبائے عام کو روک بھی تو نہیںسکتے ۔موبائل کی وبا اتنی عام ہے او رہر ایک کواپنی لپیٹ میں لے رہی ہے کہ دنیا میں صرف وٹس ایپ کے صرف اور صرف دو ارب استعمال کرنے والے ہیںجو روز بروز زیادہ ہو رہے ہیں۔وٹس ایپ پرمنڈلاتے خطرات کو دیکھ کر ترکی نے اپنی وٹس ایپ بنا لی ہے۔جس کو عام لوگ دھڑا دھڑ اپنارہے ہیں۔اگر نیا قانون بنتا ہے تو اس کو توڑنے والے بھی انھیں میں خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں۔کبھی کوئی قانون پاس ہو اگر ابھی تک قائم ہو اور اس کی وجہ سے پبلک کنٹرول میں ایسا ہر گزبھی نہیں ۔قانون توموجودہے مگرعمل جو نہیں۔بچوں کے ہاتھ سے موبائل لے نہیں سکتے کہ گھر کے سازگارماحول میں رکاوٹ پڑتی ہے بچے اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتے ہیں ۔سو کیاکریں کیا نہ کریں۔کچھ سمجھ میںنہیں آتا۔ سب کچھ سمجھ سے باہر ہوا جاتا ہے ۔