وزارت صنعت و پیداوار نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ چینی کی قیمتیں ایک مرتبہ پھر بڑھ رہی ہے جبکہ حکومت نے خام چینی پر عائد درآمدی ڈیوٹی (ٹیکس) ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے تاکہ ملک میں مناسب قیمتوں پر چینی کے ذخیرے کو یقینی بنایا جا سکے۔ فی الوقت گنے کی خریداری میں مڈل مین کا کردار بڑھ گیا ہے اُور اِس سلسلے میں وفاق نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ گنے کی کسانوں سے خریداری اور ملوں کو فروخت میں ہونے والی بے قاعدگیوں پر نظر رکھے اور چینی جیسے میٹھے بحران سے فائدہ اُٹھانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ چینی کی ذخیرہ اندوزی روکنے کےلئے وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے شوگر ملوں میں کیمرے نصب کرنے کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔پاکستان شوگر ملزم ایسوسی ایشن کے چیئرمین سکندر خان نے وزیراعظم کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے چینی کی قیتموں کے معاملے پر توجہ دلاتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی مارکیٹ کو مستحکم کرنے کےلئے چینی اور گڑ کی افغانستان اور وسطی ایشیا کےلئے جاری غیرقانونی برآمد (سمگلنگ) روکی جائے۔ وفاقی حکومت گڑ کنٹرول ایکٹ 1948ءنافذ کرے جو کاشتکاروں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی گنے کی فصل کا زیادہ سے زیادہ پچیس فیصد سے گڑ بنا سکتے ہیں شوگر ملیں چاہتی ہیں کہ چالیس کلوگرام گنے کی زیادہ سے زیادہ قیمت 200 روپے مقرر کی جائے تو وہ 84 روپے فی کلوگرام چینی دے سکتے ہیں لیکن اگر چالیس کلوگرام گنے کی قیمت 300 روپے مقرر کی گئی تو ایکس مل فی کلو چینی نے قیمت 124 سے 130 روپے فی کلوگرام ہوگی۔ دسمبر دوہزار بیس میں چینی کی قیمت کم ہونے کے بعد جاری مہینے (جنوری دوہزار اکیس) میں چینی کی قیمت پانچ سے چھ روپے فی کلو بڑھنے کے بعد 95 سے 100روپے فی کلوگرام فروخت ہو رہی ہے! تھوک میں نوے اور پرچون میں 95 روپے فی کلوگرام چینی گلی محلے کے دکاندار 100 روپے تک فروخت کرتے ہیں کیونکہ چینی کی بوری کا وزن پورا نہیں ہوتا اور کم مقدار میں چینی لینے والوں کو شاپنگ بیگ بھی دینا پڑتا ہے چینی کی قیمت کم کرنے کےلئے کسانوں اور شوگر ملز کے درمیان خریدار (مڈل مین) کو نکالنا ہوگا جو نئے قانون کی وجہ سے دخل انداز ہے کیونکہ فروخت کنندگان کے لئے یہ لازمی کر دیا گیا ہے کہ اُن کا اپنا بینک اکاو¿نٹ ہونا چاہئے جبکہ کسانوں کی اکثریت کے نام بینک کھاتے (اکاو¿نٹس) نہیں ہیں‘گنے کی پیداوار‘ بلواسطہ اور بلاوسطہ خرید و فروخت‘ شوگر ملوں کا منافع‘ حسابات مرتب کرتے ہوئے قواعد میں موجود سقم سے فائدہ اور چینی پر عائد سیلز ٹیکس کے سبب چینی کی قیمت کو کسی کروٹ قرار نہیں اور اِن سبھی محرکات کو جانتے ہوئے بھی اِن میں کمی نہیں لائی جا رہی تو قصوروار کون ہے؟ کسے وکیل کریں‘ کس سے منصفی چاہیں؟