بہت پیار ا انسان دوست یار بھائی بند رشتہ دار جب اچانک سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دوسری دنیا چلا جاتا ہے ۔اس وقت نامعلوم سی مایوسی کا ایک دورہ پڑتا ہے۔لگتا ہے دنیا میں اندھیروں کا راج ہو گیا ہے ۔جیسے دنیا ختم ہوگئی ۔مگر جب اس غم میں عزیز رشتہ دار سجن بیلی شریک ہو جاتے ہیں تو غم ہلکا ہو جاتا ہے ۔جیسے کاندھوں میںاس پہاڑ جیسے بوجھ کو اٹھانے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے ۔کیونکہ کوئی بھی کیفیت ہو خواہ غم کی ہو پائیدا ر نہیں ہوتی۔ مدت گذر جانے کے بعد تازہ تو ہوتی ہے مگر اس میں وہ شدت نہیں ہوتی۔کیونکہ دنیابہت پر کشش ہے ۔آدمی اس میں کھو جاتا ہے ۔ مگر اس کے باوجود بعض عزیزوں کی وفات کا دکھ تادیر دل میں کانٹے چبھوتارہتا ہے ۔ اس کے مرنے اوراس کو دفنا دینے کے بعد مدتوں یقین نہیں آتا کہ وہ دنیا سے منہ موڑگیا ہے ۔معلوم ہوتا ہے ابھی کہیں سے آ جائے گا۔مگر اس موقع پر ایک ہی نسخہ ہے کہ جس کے ذریعے بندہ اپنے عزیز اور دوست سے بچھڑجانے کے غم پر پر قابو پا سکتا ہے۔ وہ نسخہ صبر ہے ۔مالک کی رضا پر سر جھکانا ہے ۔خاموش ہوجانا ہے کیونکہ ہر چیز مجبور ہے کیا آسمان کیا ستارے کیا زمین کیا زمین پررہنے والے انسان سب تقدیر کے آگے مجبور ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی والدہ ماجدہ کی وفات پر جو نظم لکھی ہے وہ اس موت کے فلسفے کو بھرپورطریقے سے ظاہر کرتی ہے ۔اس نظم کا نام ” والدہ مرحومہ کی یاد میں “ ہے ۔یہ نظم اقبال کی اردو شاعری کی اول کتاب بانگِ درا میں موجودہے ۔پھر تمام اردو شاعری میں ایک شاہکار ہے ۔اس میں انھوں نے فرمایا ہے ” آنکھ پہ ہوتا ہے جب یہ سرِ مجبوری عیاں ۔ خشک ہوجاتا ہے دل میں اشک کا سیل رواں“۔جب بندہ اس مجبوری پر غور کرتا ہے تو اس کے بہتے ہوئے آنسو خشک ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ یہاں ایک آدمی نے تو مرنا نہیں ہے ۔یہاں جو جیتا ہے وہ مرتا بھی ہے۔رحمن بابا پشتو کے شاعر ہیں ۔ خوب شعر کہا ۔فرماتے ہیں اگر کوئی زندہ انسان کسی مردہ کی قبر پر جاتاہے تو غور کریں یہی اپنی جگہ ایک عبرت ہے۔ مراد یہ ہے کہ جو زندہ ہے کل وہ بھی منوں مٹیوں تے جا کر چھپ جائے گا۔ پھر دوسرے زندہ لوگ اس کی قبر پر آئیں گے۔عزیزوں رشتہ داروں کا مرنا اپنی جگہ الم ناک ہے ۔ مگر دوست کا مر جانا الگ سے درد ناک ہے وہ جس کو دل کی باتیں بطورِ راز بتلائی جاتی ہیں۔ جس سے اپنا دکھ اپنا غم بانٹ کر دل کو ایک طرح کی تسلی ہو جاتی ہے۔رشتہ داری کا الگ مزہ ہے اور دوستی کا لطف جدا ہے ۔کسی عزیز کی رحلت کا غم بھی جدا ہوتا ہے او رکسی دوست کے ہمیشہ کےلئے بچھڑ جانے کا ناقابلِ برداشت درد بھی بہت تکلیف دیتا ہے ۔باری تعالیٰ اپنے پرائے کو دکھ درد سے بچائے۔ہمارے دوست محترم پروفیسر تنویر احمد بھی اچانک ہمیں چھوڑ گئے ۔نہ کوئی بیماری نہ تکلیف ۔بہت آسان موت ۔دیکھتے دیکھتے انھوں نے دیکھنا بند کر دیا ۔ ایک دن علالت کے بستر پر رہے اور جان دے دی۔وہ گورنمنٹ کالج پشاور کے اردو ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین کے عہدے پر بھی رہے ہیں۔ بہت فرض شناس اور چھوٹو ںکو حوصلہ دلانے والے ۔سٹوڈنٹس ہوں یا استاد وہ ان کے مسائل کو حل کرنے والے تھے۔تقریری مقابلے ہیں یانعت یا تلاوت کے پروگرامات وہ کالج کے ہال میں پہلے موجودہوںگے۔ان کے لاتعداد شاگرد ہیں جو اس وقت مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔پرسوں جب ان کی وفات کی خبر عام ہوئی تو ان کے چاہنے والوں نے منہ میں انگلیاں داب لیں۔ یقین نہیں آتا تھا کہ ایسابھی ہو سکتا ہے ۔وہ ایک ادیب تھے۔انھوںنے اپنا یوٹیوب چینل کھول رکھاتھا ۔وہاں مثنوی مولانا روم اور اس قسم کے دیگر دشوار موضوعات پر آدھ گھنٹہ کا لیکچر دیتے ۔کالج میں طالب علموں کو اگر کسی معاملے میں خود احتسابی اور بلند حوصلگی کا سبق دلواناہوتا تو پروفیسر صاحب ہی آگے ہوتے۔پروجیکٹر کے ساتھ سلائیڈز پر ان کی گرم گرم تقریر جاری رہتی جس میں طلباءکے علاوہ خود استاد بھی شریک محفل ہو تے۔وہ ماہرِ تعلیم تھے‘پروفیسر تنویر کا پروفائل بہت اعلیٰ ہے ۔اس کے علاوہ وہ بعض دینی مدارس میں پڑھاتے رہے ہیں ۔مگر کالج کی سیاسی زندگی بہت کم حصہ لیا ہے ۔ کالج میں زیادہ تر وقت گذاری لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھنا۔ ایم اے اردو کے ساتھ ایم انگریزی بھی تھے ۔ پروفیسر اردو کے تھے مگر ان کے زیرِمطالعہ زیادہ تر کتابیں انگریزی کی ہوتیں۔ ا ن کی گفت و شنیدمیں زیادہ تر حوالہ جات انگریز رائٹرز کے ہوتے ۔ مگر کبھی ان کے ہاتھ میں کشف ال محجوب جیسی کتاب ہوتی ۔اس تحریر کے چوکھٹے میں اس قدآدم شخصیت کی تصویرسجانا از حد دشوار ہے ۔یہ کہنے میں باک نہیں کہ ان کامتبادل ملنابہت مشکل ہے ۔