خیبرپختونخوا کی درجن سے زائد جامعات کو ’مالی بحران‘ کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہیں اور پینشن کی ادائیگی کے علاوہ جاری اخراجات میں بھی مشکلات کا سامنا خبروں‘ تبصروں اور تنقید کی صورت پیش کی جا رہی ہے جبکہ جامعات کی نظریں صوبائی حکومت سے ملنے والی مالی امداد پر ٹکی ہیں اور توقع ہے کہ جامعات کی اہمیت و افادیت اور تدریسی عملے سمیت ملازمین کے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے مالی امداد جاری کرنے میں زیادہ تاخیر نہیں کی جائے گی جامعات کا مالی بحران ایک ایسا موضوع ہے جس پر جتنا زیادہ لکھا جائے اور جس قدر اِن کے حقوق کی ادائیگی کی جائے اُتنا ہی کم رہے گا۔ خیبرپختونخوا کی سولہ میں سے صرف دو جامعات (خیبر میڈیکل یونیورسٹی اور کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) ایسی ہیں جن کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں دیگر سبھی جامعات کی کہانی کم و بیش ایک جیسی دکھائی دیتی ہے کہ اُن کے اخراجات آمدن سے زیادہ ہیں۔ اِس سلسلے میں قدیم ترین ’یونیورسٹی آف پشاور‘ کی مثال سے بھی صورتحال کو سمجھا جا سکتا ہے جس کی آمدن و اخراجات میں 60 کروڑ روپے کا خسارہ ہے اور اگر اساتذہ کی تنخواہوں اور پینشن میں سالانہ دس فیصد اضافہ بھی کیا جائے تو یہ خسارہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ اِسی طرح ’زرعی یونیورسٹی پشاور‘ بھی سالانہ 88 کروڑ روپے سے زائد کے خسارے میں ہے۔ توجہ طلب ہے کہ صوبے کی چند جامعات نے طلبہ کی تعداد اور خدمات کی شرح فیس میں اضافے سے اپنے مالی بحران پر قابو پانے کی کوشش کی ہے اور بڑی حد تک تدریسی اور دیگر عملے کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی میں تو کامیاب ہوئی ہیں لیکن پینشن جیسا بھاری بوجھ ادا کرنا اِن جامعات کے بس میں نہیں اور اگر جامعات مالی بوجھ طلبہ پر منتقل کرتی ہیں تو اِس سے سرکاری جامعات کا بنیادی مقصد ہی فوت ہو جائے گا اور تدریسی عمل پر صرف اُنہی طلبہ کا حق ہوگا وہ بھاری فیسیں ادا کرنے کی مالی سکت رکھتے ہیں۔ نجی اور سرکاری جامعات کے درمیان فرق (تمیز) کو برقرار رکھنے اور اعلیٰ تعلیم و تحقیق جیسے شعبوں کی سرپرستی کرنے کےلئے سلسلے میں حکومتی فیصلہ سازوں کو اپنے کردار اور عمل پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔قیام پاکستان سے قبل (سال 1913ئ) اسلامیہ کالج 300 ایکڑ اراضی پر قائم کی گئی جبکہ ترناب‘ رائی کلی اور ہری چند میں 1089 جریب زرعی (زیرکاشت) زمین کے علاوہ خیبربازار پشاور اور چارسدہ بازار میں مجموعی طور پر 395 دکانیں اِس تعلیمی ادارے کے نام کی گئیں اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ تین مرتبہ (1936ئ‘ 1945ءاور 1948ئ) یہاں تشریف لائے اور سال1939ءمیں اپنی جائیداد بھی اِس کے نام کی لیکن اِس قدر بڑی جائیداد اور سال 2008ءمیں کالج سے یونیورسٹی کا درجہ پانے والی یہ تاریخی درسگاہ بھی مالی بحران سے گزر رہی ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ نے حکومت سے 61 کروڑ 88 لاکھ روپے مالی امداد طلب کی ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جبکہ نجی تعلیمی ادارے (سکول کالجز اور جامعات) دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں اور اُن کے پاس سرکاری جامعات کی طرح میلوں پر پھیلی اراضی اور مستقل آمدن کے وسائل بھی نہیں ہوتے تو کیا وجہ ہے کہ سرکاری جامعات مسائل کی دلدل میں دھنس رہی ہیں؟ سرکاری جامعات اپنے فیصلوں میں خودمختار ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سالانہ خریداری‘ تعمیرومرمت نیز کمپیوٹرائزیشن و انٹرنیٹ کی فراہمی جیسی ضروریات سے متعلق فیصلے خود کرتی ہیں اور اِن فیصلوں میں مستقبل کی ضروریات و تقاضوں کو مدنظر نہ رکھنے کے سبب ناپائیداری کی وجہ سے جب مالی مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو اِس کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے رجوع کیا جاتا ہے۔ بنیادی ضرورت اِس بات کی ہے کہ سرکاری جامعات کے وسائل اور مسائل کا الگ الگ فہرست کیا جائے اور اُن کے حل کےلئے درست و پائیدار فیصلے کئے جائیں جامعات کے فیصلہ سازوں کو حکومتی امداد کی توقع کے علاوہ اپنی خودمختاری‘ مالی فیصلوں اور وسائل پر بھی نظر کرنی چاہئے کہ کس طرح جامعات کے وسائل اور اُن پر مختلف سیاسی ادوار میں افرادی بوجھ اِس حد تک بڑھایا گیا کہ آج یہ ادارے اپنے ہی بوجھ کو اُٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ وہ ادارے کس طرح نئی نسل کی تعلیم و تربیت کا حق ادا کر سکیں گے جن کے بعض فیصلہ سازوں کا انتخاب اور اکثر افرادی قوت سیاسی وابستگیوں کی بنا پر مشکوک ہیں؟۔