ان دنوں ایک مسئلہ بہت گھمبیر ہے ۔سردی کی وجہ سے گیس کی لیکیج سے بہت صارفین اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں ان کی موت کی خبراخباروں میں دیکھ سکتے ہیں۔ یا پھر یو ٹیوب خبروں کی ذاتی چینل پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔وٹس ایپ پر بھی ان اموات کی ویڈیو شیئر ہوتی ہے۔ایک تو کیا پوری فیملی کے تمام ارکان جان سے جاتے ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ رات کو سوتے وقت گپ شپ میں مصروف ہوتے ہیں۔ گیس بند کرکے نہیں سوتے۔ ایک کہتا ہے ابو گیس کی کنجی بند کردیں گے ۔دوسراکہتا ہے کہ امی تو سونے سے پہلے ضرور ہر چیز کو چیک کرتی ہے ۔وہ ضرور دیکھ بھال کرلیں گی ۔چلو میں خود بھی تھوڑی دیر کے بعد باتھ روم کےلئے اٹھوں گا تو خوددیکھ لوںگاکہ گیس کاکوئی کنکشن کھلاتو نہیں رہ گیا۔ ایک دوسرے پر ڈال کر یہ لوگ ٹی وی پرفلم دیکھتے دیکھتے اچانک آنکھ لگ جانے کی وجہ سے سو جاتے ہیں۔پھر شہر کے باقی شہری تو صبح دم اٹھ جاتے ہیں۔سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ان کی صبح ہو جاتی ہے ۔مگر یہ فیملی غروب آفتاب کو بھی اٹھ نہیں پاتی ۔کیونکہ ان کی صبح نہ ہوئی ۔یہ ہمیشہ کوسوتے رہ گئے۔ذرا بھر کی غفلت کی وجہ سے ان کو اپنے اس سست ہوجانے پر پشیمان ہونے کا موقع بھی نہیں ملا ۔اس لئے سونے سے پہلے گیس کا ہیٹر ہو یا گیس کا چولھا اس کو اٹھا کر کمرے سے باہر نکال کر رکھنا چاہئے۔ بعض گھروں میں بچے کافی سے زیادہ شرارتی ہوتے ہیں۔ وہاں تو ضرورت سے زیادہ احتیاط کرنا چاہئے۔کیونکہ رات کو سو جانے کے بعد ان بچوں میں سے کوئی گیس کی کنجی کو کھول بھی سکتا ہے۔کیونکہ ہر چیز میں ان بچوں کا ہاتھ ہوتا ہے ۔پھر چولھا کمرے سے باہر اس لئے بھی رکھیں کہ فیملی کاکوئی ممبر رات کو اٹھے تو نیند کی حالت میں سردی کی وجہ سے کہیں ہیٹر کا سوئچ آن کرکے ہیٹر لگانے کی ناکام کوشش نہ کرے ۔گیس کا کنکشن کمرے کے اندر سرے سے ہوناہی نہیں چاہئے۔کیونکہ اگر گیس کا لیور بند کر کے آپ اطمینان سے سوگئے تو ہو سکتا ہے وہاں گیس لیک کر رہی ہو۔جو کمرے میں موجود تمام افراد کےلئے موت کا سامان بن جائے۔اس لئے کوئی روشن دان وغیرہ کھلا ہوناچاہئے۔گیس ویسے بھی کون سی آتی ہے ۔پرسوںبونیر والوں کو گیس دی گئی ۔اچھی بات ہے ۔وہاں شاید صرف گیس کی پائپ لائنیں دی گئی ہوں گی۔ اب ان میں گیس آتے آتے آئے گی۔ کیونکہ پورے ملک میںگیس کا بحران یوں ہے جیسے بجلی کابحران ہے اور پٹرول ڈیزل کی قیمتوں کا مسئلہ ہے ۔گیس کا ہونا اور پھرغائب ہو نا ہی لیکج اور گیس کھلی رہنے کا کارن بنتا ہے ۔جب گیس جل رہی ہے تو خوش باش فیملی سردی میں چولھے پراندر کمرے میں ہاتھ تاپ رہے ہوتے ہیں ۔آنکھ لگ جائے اور پھر قیامت تک ان کی آنکھ نہ کھلے تو مطلب یہ ہوا کہ گیس کی لوڈ شیڈنگ میں ان کے سو جانے کے بعد گیس آنا بند ہوگئی اور ہیٹر ٹھنڈا پڑ گیا ۔پھر جب دوبارہ گیس آئی تو اس کو روشن کرنے والا کوئی بندہ کمرے میں جاگ نہیں رہا تھا۔ سو وہ ان کو رات کے اندھیرو ںمیں قسمت کے اندھیارے بھی دے گئی۔اس قسم کے واقعات میں سب سے بڑا عمل دخل غفلت کا ہے دوسرا نا سمجھی کا ہے۔ ہمارے عزیزوں میں دو بہنیں تھیں۔اوپر والی منزل کے کمرے میں گئیں توکمرے میں گھپ اندھیرا تھا اور وہاں گیس کی بُو تھی ۔ایک کو بُومحسوس ہوئی تو کہا ہائے بہت اندھیرا ہے جانے کہاںسے گیس لیک ہو رہی ہے ۔ٹھہرو میں ماچس لاتی ہوں کہ بجلی کا بٹن نظر آئے۔ دوسری نے کہا خبردار ماچس کا کام نہیں۔اس نے ٹٹول کر بلب کا بٹن آن کر دیا۔ پھر کیا تھا ان میں سے ایک کی تو زندگی کا بٹن آف ہوگیا اور دوسری کا جسم جل گیا۔لکڑیوں کی چھت دھماکے سے اڑ گئی۔چند سالوں پہلے ہمارے ایک گورنمنٹ کا لج کے پروفیسر سپورٹس کی ٹیم لے کر ایبٹ آباد گئے تھے۔ سخت سردی کے دن تھے۔ ہاسٹل میں جگہ ملی تو وہیں رات کو جاگتے جاگتے سو گئے ۔ سوئی گیس کا ہیٹر جل رہا تھا۔ خداجانے را ت کو کس وقت گیس گئی اور پھرآگئی۔ مگر ان کی بند ہوجانے والی سانس واپس نہ آئی۔برسو ں پہلے خود میری پہلی پوسٹنگ مانسہرہ کے گورنمٹ کالج اوگی میں تھی ۔صبح اٹھے تو ہمسایے میں شور تھا۔بین اور رونا دھونا۔ پوچھ پڑ گئی ہوا کیا۔ معلوم ہوا کہ مہینہ بھر پہلے کے دولھا دلھن رات کمرے کے اندر کوئلے جلاکر سوگئے تھے ۔دولھا تو بعد میںہمیشہ کےلئے آخری آرام گا ہ کو روانہ ہوگیا اور دلہن ہسپتال میں ہفتہ بھر داخل رہی ۔پچھلے دنوں کوئٹہ میں گیس لیکیج سے آگاہی کی سرکاری مہم چلائی گئی ۔میں کہتاہوں ہمارے ہاں بھی اس قسم کی مہم چلائی جانی چاہئے۔کیونکہ یہ مسئلہ ہر جگہ ہے ۔اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا تدارک آسانی سے ہو سکتا ہے بات ہے صرف توجہ دینے اور احتیاط کرنے کی اور دیکھا جائے تو جتنی بھی جدید زندگی کی سہولیات ہیں ان سے استفادہ کرنے میں اگر احتیاط نہ کی جائے تو فائدے کی بجائے نقصان ہی نقصان ہے چاہے وہ بجلی ہے یا پھر گیس۔