نیو یارک سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا امریکہ کا ایسا شہر ہے جو دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے یہاں دنیا کی ہر نسل اور قومیت کا انسان آپ کو مل جاتا ہے کیونکہ ساری دنیا سے امریکہ میں داخل ہونیوالے اور اپنے مستقبل کو آزمانے والے اس شہر میںروزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں نیو یارک ثقافت‘ معیشت اور ذرائع ابلاغ کے لحاظ سے بھی دنیا میں بڑا نام ہے کامرس ‘ ریسرچ ٹیکنالوجی‘ تعلیم‘ سیاست ٹورازم‘ آرٹ‘ فیشن اور کھیلوں کی دنیا میں بھی نیویارک شہر کانام امریکہ کے اولین شہروں میں شامل ہے بحراوقیانوس اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ میرے سامنے تھا‘ نہ جانے فیری میں بیٹھنے کیلئے کتنا ٹکٹ میرے میزبان نے ادا کیا تھا میں نہیں جانتی‘ بس ہم پانچ لوگ چھوٹی سی دو منزلہ کشتی میں بیٹھ گئے جو فیری کہلاتی تھی اور انجن سے چلتی تھی میں اپنی زندگی میں پہلی بار کسی سمندر میں فیری کے ذریعے پانیوں میں جارہی تھی خوشگوار صبح کی ہوا‘ گرمیوں کے موسم میں بہت اچھا سا تاثر دے رہی تھی دور بہت دور آزادی کا مجسمہ نظر آرہا تھا جس نے اپنا ہاتھ اور اس میں پکڑی ہوئی ٹارچ فضا میں بلند کئے ہوئے تھے ہم نے اسی مجسمے کے قریب جانا تھا اور کچھ دیر بعد ہم اس جزیرے پر پہنچ گئے جہاں ہم سے بھی پہلے سیاحوں کا جم غفیر موجود تھا اس جزیرے کا نام لبرٹی آئی لینڈ ہے اگر میں انہی دنوں اس سیر کے بارے میں نہیں اپنے احساسات کو قلم بند کرتی تو یقینا جزئیات بھی لکھتی اس بات کو کئی مہ و سال گزر چکے ہیں سیر کے بارے میں حافظے میں بہت کم باتیں یاد رہ گئی ہیں اتنا یاد ہے کہ ایک ریسٹورنٹ وہاں جزیرے پر موجود تھا سامنے میز کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور نیویارک کے آزادمنش لوگ مغربی کھانے سامنے رکھے ہوئے ادھر ادھر دیکھے بغیر کھا رہے تھے مغرب کے لوگوں کو پانیوں سے عشق ہے وہ پانیوں کو گلے لگانے کے لئے ہمیشہ تیراکی کرتے ہیں اور تیراکی کے لباس کو عزیزرکھتے ہیں بہت چھوٹی عمروں مں تیراکی سیکھتے ہیں اورسردی گرمی میں سوئمنگ پولو‘ جھیلوں‘ دریا ﺅںاور سمندر کے قریب ترین نہ صرف رہنا پسند کرتے ہیں بلکہ پانیوں میں اتر کر اس کو اپنی محبتوں کا احساس بھی دلاتے ہیں ایٹچوآف لبرٹی کا جزیرہ کافی بڑے رقبے پر پھیلا ہوا تھا اور لوہے کی ریلنگ کے ذریعے اس کے اطراف کو بند کیاگیا تھا بڑی بڑی دور بینیں جگہ جگہ نصب کی گئی تھیں کہ سیاح اس میں نظریں لگاکر سمندر کو دور تک دیکھ سکیں ہو سکتا ہے آج کئی سال گزر جانے کے بعد ٹیکنالوجی کی جدید ترین مشینیں بھی وہاں رکھ دی گئی ہوں میں نے یہ جدید دور بین بھی پہلی دفعہ اس جگہ دیکھی تھی اس میں ایک ڈالا کے سکے ڈالے جاتے ہیں تو یہ اپنا کام شروع کر دیتی تھی ہم پورے جزیرے پر خوب فرصت سے اور دلچسپی سے گھومتے رہے اور آخر کار مجسمے کے قریب ترین پہنچ گئے دنیا کا عجوبہ‘ ایٹچوآف لبرٹی یا آزادی کا مجسمہ اتنا بڑا ہے کہ دور سے تو اس کا مختصر سراپا نظر آتا ہے فرانس کی ایک اہم ترین شخصیت مسٹر لیبولیئی امریکہ 100سالہ جشن آزادی پر1776-1876 امریکہ کو فرانس کی طرف سے تحفہ دینا چاہتا تھا فرانس کے آرٹسٹ مسٹر بیرتھولڈی نے اس مجسمے کا مٹی سے ماڈل بنایا تھا اور ایفل جو فرانس کا ہی انجینئر تھا جو اس سے پہلے ایفل ٹاور بنا کر فرانس کو شہرت دے چکا تھا اسی نے اس مٹی کے ماڈل کو ایک لمبے عرصے میں مضبوط مجسمہ بنایا امریکی ورکرز نے بحراوقیانوس میں اسکو نصب کرنے کیلئے اسکی بنیادیں یا بیس بنائیں 1876ءمیں ہی فرانس نے اس مجسمے کے بازو اور ہاتھ میں پکڑے جانے والی ٹارچ بھیج دی تھی مجسمہ اتنا بڑا ہے کہ اسکو مختلف ٹکڑوں میں بنایا گیا سمندر کے وسط میں لبرٹی جزیرے میں مجسمے کو نصب کرنے کیلئے بہت بڑی رقم کی ضرورت پڑی جو فرانس اور امریکہ کے عوام نے ایک فنڈ کے ذریعے اکٹھی کی مجسمے کے اندر لوہا لگا ہوا ہے لیکن اس کابیرون تین سو کوپر کی چادروں پر مشتمل ہے ایک بحری جہاز کے ذریعے سمندر میں مجسمے کے مختلف اعضاءجزیرے تک پہنچائے گئے اور اس وقت کے امریکہ کے صدرگرورکلیولینڈ نے آزادی کے مجسمے کو نصب کرنے کی تقریب میں براہ راست حصہ لیا آپ امریکہ کے بائیسویں صدر تھے ایٹچوآف لبرٹی ایک خاتون کا مجسمہ ہے جس کے دائیں ہاتھ میں بہت بڑی ٹارچ ہے اور بائیں ہاتھ میں اس نے ایک تختی پکڑ رکھی ہے جس پر امریکہ کی آزادی یا امریکہ کے قیام کی تاریخ لکھی ہوئی ہے اور لکھا ہے4جولائی1776ءآپ مجسمے کی جسمانی لمبائی چوڑائی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ 30منزل عمارت جتنا اونچا ہے115 گاڑیوں جتنا اس مجسمے کا وزن ہے تین بسیں اوپر نیچے رکھ دی گئیں تو اسکی لمبائی بنتی ہے اس کے اندر کمرہ بھی بنا ہوا ہے اس میں ایک نظم لکھی ہوئی ہے جو دیارغیر اور دور دراز سے آنے والوں کو خوش آمدید کہتی ہے اور اس میں تو کوئی شک نہیں رہ گیا کہ آزادی کا یہ مجسمہ فرانس اور امریکہ کی پائیدار دوستی کا آئینہ دار ہے2076 میں آزادی کا مجسمہ300 سال کا ہو جائیگا کہا جاتا ہے کہ مجسمے کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹارچ کئی میلوں سے بحری جہازوں کو سمندر کے ساحل کی طرف نشاندہی کرتی تھی اور اب بھی کرتی ہے لیکن اب اور بھی جدید ترین ٹیکنالوجی آگئی ہے جس سے سمندر کا کوئی گوشہ جہاز کے کپتان سے پوشیدہ نہیں ہوتا مغربی ملکوں میں سیاحت کیلئے جاﺅ تو اس کی ترقی اور جدید رہنے سہنے کے طریقوں کو قریب سے دیکھنے کے مواقع ملتے ہیں سیاحت ویسے بھی سوچ اور سمجھ کو وسیع تر بناتی ہے میرے بچے تو پہلی دفعہ امریکہ دیکھ رہے تھے وہ ہر ایک موڑ پر مجھ سے ترقی یافتہ امریکہ کے بارے میں سوال کر رہے ہیں اور بے انتہا خوش تھے کہ انہوں نے بھی سمندر کو پہلی دفعہ دیکھا تھا میں خود اس سے پہلے بحرہند کولمبو کے ایک ہوٹل کی کھڑکی سے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی تھی اور اب دوسری مرتبہ بحراوقیانوس دیکھ رہی تھی آج جب کہ یہ سطریں لکھ رہی ہوں ان گزرے مہ و سال میں کتنے ہی سمندر دیکھ چکی ہوں ان کے پانیوں میں سفر کرچکی ہوں انکے کناروںپر کتنے ہی ان مول لمحات گزار کے سوچوں کے کئی ہرت کھول چکی ہوں لیکن جو حیرت خوشی اور بے ساختگی مجھے پہلی دفعہ بحرہند دیکھنے کی ہوئی تھی وہ بعد میں کبھی اتنی زیادہ نہیں ہوئی جب سری لنکا میں تین منزلہ ہوٹل کی ایک کھڑکی سے اتفاقاً جو میں نے نیچے دیکھا تھا تو سمندر نے مجھے گنگ سا کردیا تھا لبرٹی آئی لینڈ میں بنائی ہوئی بے شمار تصویریں آج بھی مجھے نیو یارک میں سیاحت کی یاد دلاتی ہیں ہم نے کئی گھنٹے یہاں گزارے چائے پی سینڈوچ کھائے واپس فیری میں بیٹھ کر پارک سے ہوتے ہوئے نیو یارک کی سڑکوں پر آئے میکڈونلڈ کے چپس بھی میں نے نیویارک کی مشہور زمانہ پل کے پاس بنے ہوئے ایک میکڈونلڈ کی دکان سے کھائے یہ چپس اور ان کا ذائقہ اتنا اچھا خستہ اور عجیب سا تھا کہ آنے والے سالوں میں جب بھی میکڈونلڈ کے چپس کھانے کا موقع ملانیو یارک کے چپس بے ساختہ یادوں میں آتے ہی چلے گئے۔