نئے کوڑے کے ڈھیر۔۔

ان دنوں صفائی مہم چل رہی ہے ۔کچھ سرکار کی طرف سے ہے ۔پھر کچھ اہلِ علاقہ کی جانب سے یہ اچھاکام کیا گیا ہے۔ ویسے اہلکار تو اتنی دلچسپی نہیں رکھتے ۔مگر پھر بھی کیا برا ہے کہ صفائی ہو خواہ جو بھی کرے ۔بس شہر کی صفائی ستھرائی کی کوئی توسبیل نکلے ۔نہریں سوکھ گئی ہیں۔ ان میںبہتا ہوا پانی نایاب ہو چکا ہے ۔وہ پانی جو بہتا ہوا سیدھا کھیتو ںمیں بھی نالیوں کی صورت پہنچتا ہے اور پیاسے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے ۔مگر ان دنوں تو نہرکی راہ سے سڑک پر جانا ڈھیروں پشیمانی کے ٹوکرے اپنے اوپر الٹنا ہے کیونکہ وہ عفونت اور سنڈاس ہے کہ پورا علاقہ بدبوسے اٹاہے۔باقی کی کسر ان علاقوں کے مکین خود پوری کر رہے ہیں اوراپنی بربادی پر خوش ہیں۔ دنیا جہان کا گند لاکر اس کھائی میں گرا کر چلے جاتے ہیں۔کہیں مردہ گائے پڑی ہے ۔ جس کی بدبو سارے علاقے کی گلیوں کی زمین کو چاٹ کر گزر رہی ہے ۔ وہ عوام بھی جو یہاں آر پار رہائش اختیار کئے ہیں ان کے ناک میں دم ہونے لگا ہے ۔ ہمارے ہاں سب کچھ ہے مگر منصوبہ بندی نہیں ۔ جو ہے اس کو استعمال کرنے کاسلیقہ نہیں ہے ۔طریقہ تو ہر کسی کے پاس اپنے اپنے طریقے سے ہے۔مگر بات سلیقے کی ہے ۔جسے یہاں پلاننگ کانام دینا بہتر ہے ۔صفائی تو بہت اچھا قدم ہے مگر صفائی کے نام پر ا س طرح کی گندگی ڈال دینا انتہائی براکام ہے ہم ایسانہ کریں تو کیساکریں ۔یہ کام کر کے ہم پھولے نہیں سماتے خوش ہوتے ہیں ۔سیرو ںخون بڑھتا ہے ۔بھلے بدبو کے بھبکے یہ جھونکے سنگ سنگ چلتے جائیں۔گلیوں کی نالیوں میں سے بڑے پیمانے پر کھڑا اور گند سے بھرا پانی نکال دیا گیا ہے ۔ٹھیک ہے قابلِ تعریف ہے ۔گند نکال کراسی نالی کے کنارے پر ٹھکانے لگا دیا گیا ہے ۔یہ قابلِ تعریف نہیں۔سنا ہے کہ اٹھائیں گے ۔مگر کب اٹھائیں گے ا س بارے کسی فال بین کو کچھ پتا نہیں ۔اس کی تاریخ کا لفافہ طوطا اپنی چونچ میںپکڑ کرعوام کو نہیںدے رہا۔افسوس کہ گند گریل نکال کر اسی نالی کے کنارے پر ڈھیر کر دیا۔گلی الگ بندہوگئی سڑک جدا تنگ ہوگئی۔اس طرح کہ وہاںسے گاڑیوں کو گزرنے میں دشواری درپیش ہے۔مزا تو یہ ہے کہ گنداٹھایاتو جلدی ٹرک یا گاڑی میں ڈال کردور لے جائیں اور ٹھکانے لگادیں۔ ہمارے ہاں گند ڈالا جاتا ہے صاف نہیں کیاجاتا۔گند کے معاملے میں ہماری شہرت روز بروز زیادہ ہوئی جاتی ہے ۔بات ثبوت کے ساتھ مزاکرتی ہے ۔پھر بات بغیر ثبوت کے اچھی بھی تو نہیں لگتی۔وہ یہ کہ پہلے تو دنیاکے دس گندے ترین شہروں میں ہمارے دوشہر تھے۔جن میں یہ شہرِ گل پشاور بھی تھا ساتھ ہی ہزاروں ٹن کچرے روزانہ والاروشنیوں کاشہر کراچی بھی تھا ۔مگر اب تو ہم اس گراوٹ میںاتنااونچاچلے گئے ہیں کہ شہر لاہور بھی ان ٹاپ ٹین شہروں میں شامل ہو گیاہے ۔اندازہ لگائیں دنیاکے بے شمارملکوں کے اوپر کے گندے ترین شہروں ہمیں ہمارے تین شہر شامل ہیں۔پھرا س گندگی کے طوفان میں پولیو کے جراثیم یہاں پیدا نہیں ہوں گے تو کہاں پیدا ہوںگے ۔نالیوں کے کناروںپر پھینک دیا گیاگند ان دنوں کی سردی کے ساتھ کچی اورکمزوردھوپ میں خشک ہوگاتو اس کو مزید کتنے دن اور لگیںگے۔پھر جاکراگر یہ لوگ اٹھائیں تو اٹھائیں ۔وگرنہ یہ گند راہگیروں کی ٹھوکروںسے اورگزرنے والی گاڑیوں کے ٹائروں کے اڑا دینے سے دوبارہ نالی میںجا کر ان کو پھر سے بند کردے گا۔نہروں کے قریب کے علاقے نہروں کے بہتے پانیوں کے کارن زیر آب تھے۔ کسی نے کہا آج کل پانی بہت زیادہ آرہا ہے ۔یہ آب رواں تو سڑکوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ۔میں نے عرض کیا بھائی جان نہر کا پانی وہی ہے مگر نیچے نہر کے اندر کیچڑ اور مٹی اتنی زیادہ ہے کہ اب نہر کی وہ گہرائی نہیںرہی ہے ۔جس کی وجہ سے محسوس ہوتا ہے کہ پانی زیادہ ہو چکا ہے۔پھر نہروں کے باہر ابل رہاہے ۔ایسی کوئی بات نہیں۔پانی کی مقدار وہی ہے۔نالیوں کے کناروں پر نالیوںسے نکالا ہوا گند تو کوڑے کے مزید ڈھیروں کی شکل اختیار کر چکا ہے کیونکہ شہریوں نے گھروں کا گند دور کسی ڈھیر پر لے جانے کی زحمت گواراہی نہیںکی اور اسی کے اوپر گھر کے گندے شاپر پھینک دیئے ہیں ۔ مطلب یہ ہواکہ گند کانالیوں میں سے نہ نکالناہی اچھا تھا۔اس لئے کہ نئے کوڑے کے ڈھیر تو نہ بنتے ۔جتنی صفائی ہوتی ہے اتنا ہمارے ہاں گند کی مقدارمیں اضافہ ہو جاتا ہے۔پھر ہمارے شہریوں کے رویئے جب تک درست نہ ہوں گے اس شہرکی حالت درست ہونے والی نہیں ۔جانے کتنے سالوں تک ہم ٹاپ ٹین گندے شہروں کے باسی رہیں گے اور اسی طرح ترو تازگی سے محروم رہ کر باسی زندگی گزاریں گے۔اسی بُو باس سے ناک میںدم ہوگا۔اسی بستی میں بسے رہیں گے اور اس پر بس نہیں کریں گے۔