کورونا ویکسین: غلط فہمیاں

 کورونا ویکسین کے خلاف برطانیہ میں سامنے آنے والے شدید ردعمل پر پاکستان کے فیصلہ سازوں کو نظر رکھنی چاہئے اور اِن کی تفصیلات و محرکات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ اِس سے ملتا جلتا ’یقینی ردعمل‘ پاکستان میں بھی ظاہر ہوگا۔ برطانوی ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ ممکنہ طور پر فیک نیوز (جعلی خبروں) کی وجہ سے برطانیہ کی جنوبی ایشیائی برادریوں کے بعض افراد کورونا ویکسین کو مسترد کر سکتے ہیں۔ برطانیہ کے قومی صحت کے ادارے این ایچ ایس انٹی ڈس انفارمیشن مہم نے کہا ہے کہ یہ ’بہت بڑی تشویش‘ ہے اور حکام ’اتنی جعلی خبروں کو درست کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔‘ غلط معلومات میں زبان اور ثقافتی رکاوٹیں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ برطانیہ میں مقیم جنوبی ایشیائی مریضوں میں سے کچھ نے ویکسین لینے سے انکار کر رکھا ہے اور حکام جنوبی ایشین کمیونیٹیز کے رول ماڈل اور برادری کے رہنماؤں اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ وہ کورونا ویکسین کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور غلط افواہوں کا ازالہ کر سکیں۔ برطانیہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ لوگوں کو اِس بات کا احساس دلایا جائے کہ کورونا ویکسین میں گوشت والی چربی نہیں۔ ویکسین میں سور کا گوشت بھی نہیں اور اِس بات کو مذہبی رہنماؤں‘ کونسلوں اور مذہبی جماعتوں نے قبول کیا ہے اور اس بات کی تائید کی ہے کہ کورونا ویکسین حلال ہے اور اِس میں حرام اشیاء کی ملاوٹ نہیں ہے۔برطانوی حکام کیلئے سوشل میڈیا سب سے زیادہ پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے جس کے ذریعے ایسی ویڈیوز زیرگردش ہیں جن میں کوئی نامعلوم ڈاکٹر ہونے کا دعویدار شخص عوام کو اِس بات کا یقین دلا رہا ہے کہ اگر وہ کورونا ویکسین استعمال کریں گے تو اِس سے اُن کے جسم میں کئی اقسام کی تبدیلیاں رونما ہوں گی حتیٰ کہ اُن کا ’ڈی این اے‘ بھی تبدیل ہو جائے گا۔ ایک عام آدمی کیلئے یہ صورتحال کافی پیچیدہ ہے جسے اِس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ حکومت اور طبی ماہرین میں سے کس کی بات کو سُنے اور کس کی بات پر اِعتبار کرے۔ مسلمانوں کیلئے یہ بات تشویشناک ہے کہ ویکسین میں سور کی چربی یا خون کے اجزأ شامل ہیں جبکہ ہندوؤں کیلئے یہ بات ناقابل قبول ہے کہ ویکسین میں شامل اَجزا گائے سے حاصل کئے گئے ہیں جن کیلئے گائے مقدس ہے اور وہ اِس سے کسی بھی صورت استفادہ نہیں کرنا چاہتے۔ برطانوی حکام کورونا ویکسین کو مذہب سے جوڑے کی بجائے اِس کے اخلاقی پہلوؤں کی طرف توجہ دلا رہے ہیں تاہم ویکسین لینے سے انکار کرنے والے بیشتر اِیشیائی ممالک کے باشندوں کو قائل کرنا آسان نہیں کیونکہ اِس پوری کہانی (روداد) کا تعلق مذہب سے ہے۔ مغربی ممالک کے طبی ماہرین اور طب سے متعلق فیصلہ ساز کورونا وبا سے زیادہ بڑے مسئلے سے دوچار ہیں اور یہ مسئلہ اِس لئے بڑا ہے کہ اگر کسی ملک کے تمام باشندوں کو ویکسین نہیں لگائی جاتی تو اِس سے مرض کے باقی رہنے اور پھیلنے کا امکان رہے گا۔ پولیومیلاٹئس المعروف پولیو کا مرض بھی ایک جرثومے سے لاحق ہوتا ہے  انسداد پولیو ویکسین 1950ء میں سامنے آئی جس کے بعد سے دنیا کے صرف 2 ممالک (پاکستان اور افغانستان) سے پولیو کا خاتمہ نہیں ہو سکا ہے اور اگر اِسی صورت کورونا ویکسین لینے سے بھی انکار کیا گیا تو صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہوگی کہ کورونا وبا کا دنیا سے خاتمہ ہو جائے گا لیکن یہ اُن ممالک میں موجود رہے گی جہاں اِس کے علاج (ویکسین) کے بارے میں غلط معلومات کی بنا پر مخالفت پائی جاتی ہے۔ معلوم اور ثابت ہوا ہے کہ بیماریوں (وباؤں) کا انسداد اِس وجہ سے نہیں ہوتا کہ اِن کے بارے میں گمراہ کن تصورات پائے جاتے ہیں۔