پتا نہیں اسے نشے کی لت کہاں سے لگی۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے۔ابھی اس نے جوانی کی دہلیز میں قدم رکھا ہے۔حالانکہ اس کے گھرمیں کوئی اورفرد نشہ کا عادی نہیں ہے۔باپ بھی نشہ نہیں کرتا اور دوسرے بھائی بھی نہیں کرتے۔نشہ چھوٹے تو بڑی مشکل سے چھوٹتا ہے۔باپ نے اس سے کہا کہ بیٹا آہستہ آہستہ نشہ ترک کر دو۔شکر ہے کہ تم اس سے زیادہ مکروہ قسم کے نشوں کے عادی نہیں۔ہر چند سگریٹ پینا بھی تودرست نہیں۔مگر تم چرس پیتے ہو۔بات یہاں تک محدود ہو یہ ممکن ہے۔مگر کل کو تم اس سے زیادہ غلط نشے کی طرف مائل ہو سکتے ہو۔ ابھی تم نے سی ایس ایس جیسے مقابلے کے امتحان کے لئے میدان میں اترنا ہے۔کیونکہ تم پی ایم ایس کا امتحانی فارم جمع کروا چکے ہو۔اگر خدا کرے تمہارا چناؤ ہو جائے تو پھر تم کیا کرو گے۔مانتاہو ں کہ نشے کے عادی وہ لوگ بھی ہیں جو تمہارے جیسے پڑھے لکھے اوراچھے اچھے بڑے سرکاری عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔مگر پھر بھی یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔کوشش کرو کہ ا س نشے سے پیچھا چھڑالو۔ کیونکہ تم خیر سے سال پہلے انگریزی کے مضمون میں ایم اے کر چکے ہو۔ بہت برا لگتا ہے کہ تم جیسے لکھے پڑھے لوگ نشوں کے عادی ہوں۔ پھر تم جس سکول میں یہ مضمون پڑھاتے ہواگرچہ کہ تم نہیں چاہو گے مگر کیا عجب وہاں دورانِ ڈیوٹی یہ نشہ نہ کرنے کی وجہ سے تمہارے اندر چڑچڑا پن پیدا ہو اور ٹیچرکی حیثیت سے تمہاری کارکردگی خراب ہو جائے۔جس کا اثر تمہارے شاگردوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔پھر جب تم کلاس میں کہو گے کہ نشہ کرنا اچھا نہیں تو تمھارے سگریٹ کی بُو والے ہونٹوں سے یہ الفاظ کتنے برے لگیں گے۔کیونکہ تم جس چیز کے بارے میں منع کررہے ہو۔تم وہ خود کرتے ہو۔تمہارے نصیحت کے الفاظ کاان پرکوئی اثر نہیں ہوگا۔ کیونکہ ایک آدمی جو غلط کام کر رہاہو اور دوسروں کو اس سے منع کرے تو اس کی نصیحت کے الفا ظ میں قدرتی طور پر وہ زور و تاثیر پیدا نہیں ہوں گے جو کسی کو برے کام سے روکنے کیلئے ضروری ہیں۔کسی کو اگر برے کام سے منع کرنا ہے تو پہلے خود اس کام سے ہاتھ پیچھے کھینچنا ہے۔ایک پروفیسر سٹاف روم میں چھپ کے سگریٹ پیتے تھے اور کلاس میں جا کر سٹوڈنٹس کو اس نشے سے منع کرتے۔ اگر وہ سٹوڈنٹس اپنے ٹیچر کو سگریٹ نوشی کرتے ہوئے دیکھ لیں تو ان کے کردار پر استاد کی نصیحت کا بہت برا اثر پڑے گا۔ وہ سوچیں گے خود توپیتا ہے ہمیں روکتا ہے۔اس سے استاد کی شخصیت کا تضاد سامنے آئے گا۔باپ سمجھدار آدمی ہے اس نے بیٹے کو سختی کے ساتھ منع کرنے کی کوشش نہیں کی۔بلکہ بیٹے کے ساتھ دوستی کا ماحول پیدا کر کے اس کا مسئلہ جاننے کی کوشش کی۔ کیونکہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے تو یہ سگریٹ کو بُو ہے یہ کیسے چھپ سکتی ہے۔ گھر کی چھت پر جاکر تم اگر یہ کام کرکے سمجھتے ہو کہ اس بارے میں کسی کو معلوم نہ ہو گا تو غلط ہے۔سارا گھر جانتا ہے اور عزیز رشتہ دار وں کو بھی واقفیت حاصل ہے کہ تم سگریٹ کو بھر کے پیتے ہو۔کوشش کرنے میں کیا برائی ہے۔اگر روزانہ چار پیتے ہو تو ایک کم کردو مہینے بھر کے بعد ایک اور کم کر دو۔سگریٹ اچھی بات نہیں۔دھواں اور شعلہ اور بیوقوف انسان تینوں کا مرکب ہے۔ مگر اس سے آگے اور نشے بھی موجود ہیں۔ چرس تک محدودرہنا تو ممکن ہے مگر اس کے آگے ہیروئن اور آئس اور جانے کیا کیا ہیں۔ گویا نشوں کی ایک الگ اپنی سی دنیا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ بندہ نکما بن جاتا ہے۔کسی کام کا نہیں رہتا۔ پھر صحت کو الگ نقصان ہے۔خالی سگریٹ پینے سے بھی کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوا جاسکتاہے۔سگریٹ سے اس لئے منع کرتا ہوں کہ اس کی وجہ سے زیادہ خطرناک نشوں تماشوں کا دروازہ کھلتا ہے۔ایسے کئی گھرانے ہیں جہاں کا ماحول بہت اچھا ہے۔مگر جانے اس ماحول میں ایک آدھ بچہ کہیں سے سگریٹ یا کوئی اور برا نشہ کرنا کہا ں سے سیکھ کر آ جاتا ہے۔دوستوں یاروں میں اٹھ بیٹھ کرنے سے بھی بری صحبت کا اثر پڑتا ہے۔ پھر گرانی کے اس دور میں جہاں روٹی بھی مشکل سے پیدا ہوتی ہو وہاں نشہ کرناتو حماقت ہے۔کیونکہ اس پر بھی تو اچھا خاصا خرچہ اٹھتا ہے۔ پھر اس سے آدمی اچھا دکھائی نہیں دیتا۔ پھر وہ آدمی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو وہ تو اور برا لگے گا۔ باپ نے اس کو حکمت کے ساتھ مشورہ دیاکہ آہستہ آہستہ نشے کی عادت چھوڑدو۔ والد نے بچے پر کوئی سختی نہ رکھی۔ کیونکہ اس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ نشہ کرنے والے سختی کے نہیں رحم کے قابل ہوتے ہیں۔ان سے باہم مشورہ بات چیت اور دوستانہ ماحول استوار کر کے مسئلہ جاننے کی کوشش کرنا چاہئے۔ اگر نشہ کرنے والے چھوٹے ہیں تو ان سے پیار و محبت والا رویہ کر کے ان کو اس کام سے آسانی سے روکا جا سکتا ہے۔ بعض والدین اس موقع پر سخت ہو جاتے ہیں اور مار پیٹ کے ذریعے سمجھتے ہیں کہ ہم اس کو نشے سے روک لیں گے۔مگر ایسا ہو نہیں سکتا۔نشے تو ڈنڈے کے زور سے نہیں میٹھے بول کے ذریعے سے چھوٹتے ہیں۔کیونکہ ڈیل کارنیگی کہتا ہے میٹھے بول میں جادو ہے۔