گزشتہ چار سال سے کوئی ملک نیوزی لینڈ کو نیوزی لینڈ میں ٹیسٹ سیریز نہیں ہرا پایا۔ اس لئے ایسے ملک کے خلاف پاکستان کی دو صفر سے شکست اتنی حیران کن نہیں تھی جتنی حیرت انگیز اب جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز کےلئے منتخب کی گئی ٹیم ہے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں کےلئے قومی ٹیم کے اعلان کردہ بیس رکنی سکواڈ میں نو کھلاڑی ایسے ہیں جنہوں نے کبھی پاکستان کے لئے کوئی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا جبکہ دس یا اس سے زیادہ ٹیسٹ میچ کھیلنے والے کھلاڑیوں کی تعداد صرف تین ہے۔ گزشتہ ماہ جب وسیم کو چیف سلیکٹر بنایا گیا تھا تو انہوں نے اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ ’میرا فلسفہ ہے اہلیت کو بنیاد بنانا اور حالات و ضروریات کے مطابق ٹیم کا انتخاب کرنا۔ میں مشکل فیصلے کرنے سے بھی نہیں ہچکچاو¿ں گا“ اور واقعی جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کےلئے اعلان کردہ ٹیم کو دیکھ کر ایسا لگتا بھی ہے۔ بس سلیکشن میں ایک ’چھوٹا سا مسئلہ‘ ہے اور وہ یہ کہ انتخاب میں گزشتہ بین الاقوامی سیریز میں کارکردگی اور حالیہ ڈومیسٹک پرفارمنسز کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دے دی گئی ہے اور انتخاب حالات و ضروریات کے مطابق نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ سعود شکیل‘ سلمان علی آغا‘ نعمان علی مہر اور تابش خان نے اس مقام تک پہنچنے کےلئے محنت کی اور اپنی کارکردگی سے خود کو اس مقام کےلئے ”اہل“ بھی ثابت کیا لیکن یاد رکھیں کہ کسی بھی کھلاڑی کو انٹرنیشنل کرکٹ کھلانے کا پہلا موقع جنوبی افریقہ‘ آسٹریلیا‘ برطانیہ یا نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز نہیں ہے بلکہ انہیں زمبابوے‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز میں مواقع ملنے چاہئیں لیکن ہمارے ہاں معاملہ مختلف نظر آتا ہے اور عموماً ان نسبتاً کمزور ملکوں کے خلاف مضبوط ترین کھلاڑیوں کو میدان میں اتارا جاتا ہے‘ جو رنز کے انبار اور وکٹوں کے ڈھیر لگا کر ایک‘ ایک ڈیڑھ سال کےلئے اپنی سلیکشن ثابت کردیتے ہیں جبکہ ناتجربہ کھلاڑی کہ جنہیں ایسی سیریز سے بین الاقوامی کرکٹ کا انتہائی ضروری تجربہ ملنا چاہئے‘ بس ہاتھ ہی ملتے رہ جاتے ہیں یا پھر آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ جنوبی افریقہ اور برطانیہ کے خلاف میدان میں اتر کر ہمیشہ کےلئے ٹیم سے باہر کر دیئے جاتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیم گرین کی کارکردگی ہمیشہ ہی مایوس کن رہی ہے۔ آج تک کھیلے گئے چھبیس ٹیسٹ میچوں میں پاکستان نے ’پروٹیز‘ کے خلاف صرف چار فتوحات حاصل کی ہیں اور پندرہ میچوں میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ ٹیسٹ کھیلنے والے کسی بھی ملک کے خلاف قومی ٹیم کی سب سے خراب کارکردگی ہے۔ پاکستانی ٹیم کی اتنی بُری کارکردگی تو آسٹریلیا اور برطانیہ کے خلاف بھی نہیں رہی۔ آخری بار جب 2007ءمیں جنوبی افریقہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا‘ تب بھی پاکستان کو ٹیسٹ سیریز میں ایک صفر سے شکست ہوئی تھی لہٰذا ایسے ملک کے خلاف سلیکشن میں نوآموز کھلاڑیوں کے انتخاب کا مطلب ہے انہیں ’پہلا اور آخری موقع‘ دینا۔ سخت حریف کے خلاف جب خراب نتیجہ آتا ہے تو سب سے پہلے نزلہ ان نوآموز کھلاڑیوں پر ہی اترتا ہے کیونکہ ان پر غصہ اتارنا ذرا آسان ہوتا ہے پھر بیرونِ ملک کارکردگی کو بنیاد بناکر ہوم سیریز کےلئے سکواڈ منتخب کرنے کا مسئلہ ہے۔ ویسے تو معاملہ اس سے بھی گمبھیر ہے کہ ٹی ٹوئنٹی پرفارمنس کو بنیاد بناکر ٹیسٹ ٹیم میں شامل کرلیا جاتا ہے اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں اچھی کارکردگی کی بدولت قومی ٹیم میں آنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ شائقین کرکٹ جنوبی افریقہ کے خلاف اچھے کھیل (مقابلے) کی توقع ضرور رکھیں لیکن معذرت کے ساتھ فتوحات اور عالمی ریکارڈ قائم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے!