لمحوں میں قید صدیاں۔۔

اب تو چینلوں کی بھرمار ہے۔ٹی وی پر انفارمیشن کی یلغار ہے۔کون سا چینل دیکھیں کون سا چھوڑ دیں۔ پھر ایک بھی دیکھیں تو اتناوقت نہیں کہ ٹی وی سکرین کے آگے آنکھیں حیرت سے کھولے بیٹھے رہیں۔ کیبل کے سینکڑوںچینل الگ ہیں اور ڈش کے ہزاروں الگ ہیں۔ بس ایک سمندر ہے ۔کہیں کون سا چینل لگا ہے کہیںکون سا چینل لگا ہوگا ۔ کوئی دن کے دو بجے گانے دیکھ رہا ہوگا اور کوئی رات کے دو بجے خبریں دیکھ رہا ہوگا۔ اپنے ملک سے ہٹ کر پوری دنیا میں یہی کھیل جاری ہے۔بس جادو کی ایک چھڑی ہے جسے گھما¶ بس ایک فانوس ہے کہ خود رنگ برنگ جلوے لئے خود گھوم رہا ہے۔یو ٹیوب الگ ہے۔کس کو دیکھیں کس کو پرکھیں ہر طرف اطلاعات ہیں سیلاب ہے جس میں بندہ بہتا جا رہاہے ۔ ان پانیوں پر کوئی اختیار ہی نہیں ۔موجوں کے تھپیڑے ہیں اور ہم ہیں۔ ہاتھ پا¶ں ماریں تو بیکار ہے۔اپنا زورنہیں جو سامنے ہے وہ آپ سے آپ دکھائی دے رہاہے ۔کہیں نغمے تو کہیں رباب منگے کہیں وائلن بجتا ہے تو کہیں بلیک اینڈ وائٹ کے پرانے گیتوں کی نشر یات ہیں۔کہیں ڈرامے کہیں ٹاک شو کہیں سیاسی گرم بازاری ہے۔بس یہی ڈرامہ ہے۔ اتنی سی زندگی ہے۔ چار روزہ کہتے تھے اب تو تین روز کم ہو گئے ۔ ایک دن جوبچ گیا تھا وہ بھی سمٹ کر لمحوں میں بدل گیا ہے ۔” لمحوں میں قید ہوگئے صدیوں کے فاصلے ۔ آواز دے کے چھپ گئیں شہنائیاں مجھے “۔بلکہ لمحے بھی تو طویل عرصہ ہے ۔دورانیہ کم ہو رہاہے ۔پہلے ایک چینل تھا تو پورا ملک اس سے منسلک تھا۔ رات آٹھ سے نوبجے تک ڈرامہ لگتاتھا تو پورا پاکستان ایک لڑی میں پرویا ہوا تھا ۔سب کو پتا تھا کہ اس وقت سب یہی ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ جیسے بھی سہی ہماری سوچ متحدتھی۔ ڈرامہ کے بہانے سہی ۔ہم ایک تھے ایک طرح سے سوچتے تھے۔ مگر اب تو حال نرالا ہے ۔ہر ایک ہر ایک چینل دیکھ رہاہے ۔ریڈیو کے نیوز چینل بھی اب تو رنگین ہو کر یو ٹیوب میں سمٹ آئے ہیں۔ کوئی بھی آزاد میڈیا لگا لو کسی ملک کا چینل نکال لو کسی خطے کی خبریں ٹیون کر لو سب کچھ سب پھر واضح ہے ۔پھر متحرک او ردھڑکتی تصویروں کی شکل میں ہے ۔بس ایک قیامت کاسماں ہے ۔نہ سمجھ میں آنے والا سلسلہ ۔اب اس برق رفتاری میں اور تیزی بھی در آئے گی۔ جانے اگلے دنوں میں اور کون کون سے چمتکار ہونے والے ہیں۔کیا کسی دل میں خواہش انگڑائیاں لیتی ہے کہ ہم گذشتہ زمانوں کی سادگی میں زندہ ہو تے۔ بندہ پاگل ہوا جاتا ہے۔ انفارمیشن کا نہ رکنے والا سیلاب۔سب کچھ تنکے تیلوں کی طرح بہتا جاتا جا تا ہے۔کسی کااختیار نہیں کہ اس سیلانی زور ِ آب سے نکل کر دور جا گرے۔وگرنہ تو ڈوبنے والا خوش خرم ہے اور بہا¶ سے باہر نہیں جانا چاہتا۔پہلے پتا تھا کہ اس وقت رات کے آٹھ بجے ہیں اور جوڈرامہ ٹی وی کے چینل پر چل رہا ہے وہ ہزاروں میل دور ہمارے رشتہ دار بھی دیکھ رہے ہوں گے۔ سو دل کو اس بات سے تسلی ہوتی کہ چلو ہم اس طرح تو ایک دوسرے سے بہم ہوئے۔ ہم اس وقت ایک دوسرے کی صحبت میں ہیں ۔جیسے وہ شعر کہ ” اُدھر سے چاند تم دیکھو اِدھر سے چاند ہم دیکھیں۔ نگاہیں یوں ہی ٹکرائیں ہماری عید ہو جائے“۔ وارث ڈرامہ لگتا تو پورے پاکستان کے بازار شام سے پہلے سنسان ہو جاتے۔ دکاندار گھر پہنچ چکے ہوتے۔کیونکہ وارث ڈرامہ لگنے والا ہے۔ یوں نہ چاہتے ہوئے ہم کسی بہانے ایک قوم تو بن جاتے تھے۔ مگر اب تو حال جدا ہے اور حالت خراب ہے ۔رنگین ٹی وی کے لشکارے ہیں اور ہماری آنکھوں میں نظارے ہیں۔کسی کو اب کچھ معلوم نہیں کہ کون آدمی کون کون سے چینل دیکھ رہاہے ۔ ڈراموں کا ڈھیر ہے ۔ایک سے ایک بڑھ کر ڈرامہ ہے ۔ایک نہیں وہی ڈرامہ چار چار پانچ پانچ بار ٹی وی پر لگاہوتا ہے۔کسی نے نہیں دیکھا کہ دن کو جب فرصت ملے دیکھ لے ۔اگر ٹی وی کے پاس نہیںجاسکتا کہ آفس میں ہے تو دفتر کے اندر ہی چپکے چپکے ہینڈ فری لگا کر یو ٹیوب سے نکال کر دیکھے ۔مگر آج کے دور میں تو کسی کو کچھ پتا نہیں کہ رات آٹھ سے نو بجے کون کیا کر رہاہے۔یہ خوش قسمتی ہے یا بدنصیبی اس کافیصلہ آنے والے پچاس سال کے بعد ہوگا ۔جب ہم پیچھے مڑ کے دیکھیں گے ۔ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ہم ترقی کی منزل والی سیڑھی کے کس قدم پر ہیں ۔ہم کتنا آگے آئے اورکتنااونچا گئے۔ سب کو سب معلوم ہو جائے گا۔ اس وقت تو پوری قوم کو نشہ دیا گیا ہے۔جب اس کا نشہ ٹوٹے گا اس کو ہوش آئے گا تو معلوم ہوگا کہ ہم نے کیا حاصل کیااور کیا ہاتھ سے جانے دیا۔جیسے سینما کی کھڑکی پر شہری آکر قطار میں اور کچھ قطار کو پھلانگ کر کھڑکی میں سے ٹکٹ کھینچ کر لیتے ہیں ۔ جب فلم دیکھ لیتے ہیں تو ٹھنڈے یخ ہو جاتے ہیں۔جب نشہ کی سی کیفیت نہیں رہے گی تو ہمیں لگ پتا جائے گا کہ ہمارے ساتھ خودکیا ڈرامہ ہوا ہے۔