امریکہ میں انتقال اقتدار کے مرحلے پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں جو پاکستانی وقت کے مطابق آج (پاکستانی کے معیاری وقت کے مطابق بیس جنوری سے شروع ہو کر اکیس جنوری) کے روز اختتام پذیر ہوگا تاہم اِس مرتبہ کی خاص بات وہ غیرمعمولی حفاظتی انتظامات ہیں‘ جو ممکنہ حملوں (پرتشدد واقعات) کے پیش نظر کئے گئے ہیں۔ اِن انتظامات کو سمجھنے میں امریکہ کے قانون ساز ایوان کے ایک رکن کا ٹوئیٹر پیغام رہنمائی فراہم کر سکتا ہے۔ ریاست میسیچوسیٹس سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن سیتھ مولٹن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور اُنہوں نے لکھا ہے کہ ”اس وقت امریکی دارالحکومت (واشنگٹن ڈسٹرکٹ کولمبیا) میں جتنے فوجی تعینات کئے گئے ہیں اتنے تو افغانستان میں بھی نہیں ہیں اور ایسا اِس لئے ہو رہا ہے کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمیں صدر (ٹرمپ اور اُن کے حامیوں) سے تحفظ دلا رہے ہیں۔“ بنیادی بات یہ ہے کہ سابق امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُس کی ”سفید فام بالادست تحریک“ کے اراکین سے جو بائیڈن کی کامیابی ہضم نہیں ہو رہی۔ کانگریس کے رکن مولٹن نے جن غیرمعمولی حفاظتی انتظامات کا اشارتاً ذکر کیا ہے اُس کی تفصیلات یہ ہیں کہ حلف برادری کی تقریب سے قبل واشنگٹن شہر میں ’پچیس ہزار‘ نیشنل گارڈز تعینات کئے گئے ہیں جن کے ذمے اندرون شہر مختلف مقامات کی حفاظت ہے بلکہ یہ پولیس‘ خفیہ سروس اور دیگر اداروں کا ایک طرح سے ’بیک اپ‘ ہیں اور ان کی تربیت اس طرح سے کی گئی ہے کہ وہ شہری ہنگامہ آرائی سے نمٹ سکیں۔ اگر نیشنل گارڈز کو ایک لمحے کےلئے بھول بھی جائیں تو واشنگٹن مکمل طور پر بھوتوں کا شہر نظر آتا ہے‘ ایک ایسا سنسان بھوتوں کا شہر جس کی حفاظت دنیا کی سب سے پڑی سپر پاور کی فورسز کر رہی ہیں۔ تصاویر‘ میڈیا اور سوشل میڈیا رپورٹس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے دارالحکومت میں غیراعلانیہ کرفیو نافذ ہے۔ بینک‘ ریستوران اور دکانیں نہ صرف بند کر دی گئی ہیں بلکہ ان کے آگے اعلانات بھی لگا دیئے گئے ہیں تاکہ کوئی وہاں توڑ پھوڑ نہ کر سکے۔ وائٹ ہاو¿س کو جانے والی سڑک پر ایسی باڑ لگا دی گئی ہے جس کے نہ تو اوپر چڑھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے آسانی سے پھلانگ کر گزرا جا سکتا ہے۔ اہم عمارتوں کے اطراف میں جگہ جگہ خاردار تاروں کی باڑیں لگی ہوئی ہیں۔ شہر کو مختلف حفاظتی احاطوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور بفر زون بھی بنائے گئے ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں نیشنل گارڈز کے مسلح اہلکار تعینات ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ سکیورٹی کرنے والے ان نوجوانوں پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے کہ کہیں وہ تو شرپسندوں سے ملے ہوئے نہ ہوں۔ اسی لئے شاید افتتاحی تقریب کے تیاری کے حوالے سے نیشنل گارڈز کے سربراہ میجر جنرل ولیئم والکر نے کہا کہ ”فوجیوں کے کوائف کو دوبارہ چیک کیا گیا ہے۔“نئے صدر امریکہ تقریب حلف برداری صدراتی انتخابات جیتنے سے زیادہ مشکل و پرخطر دکھائی دے رہی ہے جو ماضی کی عوامی تقاریب سے بالکل مختلف ہو گی اور سکیورٹی کے علاوہ اس کی بڑی وجہ کورونا وبا بھی ہے۔ صدر امریکہ کی حلف برداری اس مرتبہ اس لئے بھی مختلف ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہار نہیں مانی اور ان کے سات کروڑ کے قریب ووٹرز میں سے بھی بہت سارے سمجھتے ہیں کہ انتخابی نتائج غلط ہیں۔ اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہمیں اس قسم کی صورتحال کی کچھ عادت سی ہے۔ دھرنے‘ پارلیمان پر حملے یہاں ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں لیکن امریکہ کے دارالحکومت نے کبھی اِس قسم کے مناظر نہیں دیکھے جہاں سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان ہے اس پر پرتشدد طریقے سے چڑھائی کی گئی اور اس کی بے حرمتی کرنے کی جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں اور جس طرح لوگوں کو گرفتار کر کے الزامات لگائے گئے ہیں اس سے یہ نظر آتا ہے کہ شاید کوئی مجرمانہ سازش تھی جس کی باقاعدہ طور پر منصوبہ بندی کی گئی اور پرتشدد گروہ صرف ڈیموکریٹس کو نہیں ڈھونڈ رہا تھا بلکہ ان ری پبلیکنز کو بھی تلاش کر رہا تھا جو کہ ان کے خیال میں انتخابات کے نتائج تسلیم کر رہے تھے جن میں نائب صدر مائیک پینس بھی شامل تھے۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بہت زیادہ دانشورانہ ذہن کا صدر نہیں سمجھا جاتا لیکن ان کی سیاسی صورت ِحال سے فائدہ اٹھانے کی قابلیت بہت تیز ہے اور ایک ایسی حالت میں جبکہ وہ انتخابات ہار بھی گئے ہیں اُور ان پر مواخذے کی تلوار بھی لٹک رہی ہے اور اِس بات کا بھی خدشہ ہے کہ صدر کے عہدے سے ہٹنے کے بعد بھی ٹرمپ کے خلاف تحقیقات ہو سکتی ہیں لیکن وہ کسی بھی چیز سے خوفزدہ نہیں اور اپنی ناکامی کے باوجود کامیاب ہونے والوں کو سخت مشکلات میں ڈالے ہوئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بنیادی طور پر امریکہ میں پائی جانے والی سیاسی برداشت‘ حوصلے اور بات چیت کے ذریعے اختلافات کو حل کرنے کی روایت (پورے سیاسی ڈھانچے) کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اگرچہ امریکہ کو نیا صدر مل بھی گیا ہے لیکن اُس کے ساتھ جڑی انتہاپسندی اور اداروں سے بداعتمادی جیسے تحائف بھی ملے ہیں‘ جس سے امریکہ کی داخلی سلامتی و سیاست مضبوط نہیں بلکہ اِس کی کمزوریاں اور خامیاں نمایاں ہوئی ہیں۔ دنیا کو جمہوریت‘ برداشت‘ سلوک‘ رواداری اور انسانی حقوق کا درس دینے والوں کو جب اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا موقع ملا ہے تو ”بے بسی کا عالم (انتہا) یہ ہے کہ اُن کے پاس الفاظ تک کم پڑ گئے ہیں!کیونکہ یہ امریکہ کے لئے نہیں پوری دنیا کے لئے ایک دھچکا تھا کہ کس طرح ایک ایسے شخص نے پورے نظام کو یرغمال بنا لیا جو اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کا عادی ہے اور کسی قاعدے اور قانون کو خاطر میں لانے والا نہیں اور پھر اس نے جس قسم کا نظریہ پیش کیا اسے ڈھیرسارے پیروکار بھی مل گئے جو نہ صرف موجودہ دور میں امریکہ کے معاشرتی ڈھانچے کے لئے خطرہ ہے بلکہ اب مستقل طور پر یہ ایک ایسے ٹائم بم کی صورت میں موجود رہیں گے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اپنے ساتھ بہت سی اقدار کو بہا لے جاسکتا ہے۔