سیکورٹی اداروں کی بیش بہا قربانیاں رنگ لانے لگی ہیں اور قبائلی اضلاع میں امن و امن کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد ترقی کا سفر تیز ہونے لگاہے ،تاہم اس کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخواکے سات قبائلی اضلاع میں سال 2020 کے دوران سیکورٹی کی عمومی صورتحا ل پچھلے سالوں کی نسبت کسی حد تک پیچیدہ اور پریشان کن رہی ہے بالخصوص چار اضلاع خیبر، شمالی وزیرستان، باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندی سے متعلق واقعات اور اس کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں دیکھنے میں آئی ہیں۔فاٹاریسرچ سنٹر نامی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے سال 2020کے دوران قبائلی اضلاع کی سیکورٹی کے حوالے سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق رپورٹنگ سال کے دوران عسکریت پسندی کے واقعات میں گزشتہ سال یعنی2019 کی نسبت اضافہ دیکھا گیا ۔یہاں اس امر کی نشاندہی اہمیت کی حامل ہے کہ گزشتہ سال ایک طویل عرصے بعد ضلع خیبر میں نیٹو افواج کےلئے افغانستان سامان لے جانے والے نیٹو سپلائی کے ٹرکوں پربھی حملہ رپورٹ ہوا ہے ۔اسی طرح زیر بحث رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے دوران عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ نوٹ کیاگیا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق اینٹلی جنس بیسڈ28کاروائیوں میں 81 عسکریت پسند ہلاک،20 زخمی اور 21 دیگر کو گرفتار کیا گیا ۔ جبکہ سیکورٹی فورسز نے بھی خفیہ اطلاعات پر جو کومبنگ آپریشن شروع کیا ہے اس میں کئی عسکریت پسندوں کے ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں ۔واضح رہے کہ اس طرح کے ایک حالیہ آپریشن میں طالبان کے سجنا گروپ سے وابستہ مشتبہ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے اور ایک کو زندہ گرفتار کرنے کا دعوی کیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ نشانہ بنائے جانے والوں میں بارودی سرنگیں بنانے اور لگانے کا ایک ماہر بھی شامل ہے جسکی بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے باعث سیکورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی نشانہ بنتے رہے ہیں۔ اگر چہ سیکورٹی اداروں کی کوششوں اور قربانیوں سے امن و امان کی صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہے تاہم ان گنے چنے واقعات کا بھی تدارک کیائے جائے تو یہاں پرترقی و خوشحالی کا سفر تیز ہوگاجس کی اشد ضرورت ہے ۔تاکہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جو قربانیاں سیکورٹی فورسز اور یہاں کے عوام نے دی ہیںان کے ثمرات سے استفادہ کرنے کا انہیں جلد ازجلد موقع ملے۔ یہاں پر اب بھی سہولیات کی کمی ہے جس کی بڑی وجہ قبا ئیلی اضلاع میں قیام امن او ر خاص کر یہاں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے کئے جانے والے وعدوں اور اعلانات پر انکی روح کے مطابق عمل درآمد کا نہ ہونا ہے جس سے قبائیلی عوام کے احساس محرومی میں اضافے کے ساتھ ساتھ صوبے میں قبائلی اضلاع کے ضم کئے جانے پر بھی بعض حلقوں کے جانب سے اعتراضات سامنے آئے ہیں ان افراد میں جہاں انضمام مخالف حلقے پیش پیش ہیں وہاں ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو انضمام کے حوالے سے متذبذب تھے لیکن جب انضمام کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تھا تو یہ لوگ انضمام کے حق میں ہو گئے تھے لیکن اب جب انضمام کے فوائد اور اثرات سامنے آنے میں بعض رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں تو یہ لوگ ایک بار پھر تذبذب کے شکار ہو کر انضمام مخالف حلقوں کے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ درحقیقت حکومت نے انضمام کے وقت قبائل کو خوشحالی اور ترقی کے جو وعدے کئے تھے ‘ اس ضمن میں طے شدہ اقتصادی ترقیاتی پیکج پر عمل درآمد کے علاوہ قبائل کو سیاسی ڈائیلاگ کے عمل میں بھی شریک کرنا ہوگا۔