آج کل تو صبح سویرے کا منظر خون جمادینے والا ہوتا ہے ۔ بچوں کو سکول لے جانے والے حضرات جو بائیک پر سوار ہوتے ہیں ۔ یہ تو وہی جانتے ہیں۔ یا پھر سواریوں والی سوزوکی میں لٹکے ہوئے لہراتے افراد کو معلوم ہوتا ہے کہ سردی کتنی ہے ۔یوں کہ جیسے سمندر میں سفر کر رہے ہوں۔ کیونکہ ہر طرف دھندکا راج ہوتا ہے ۔ میں نے دھند کہہ دیا مگر کہنے والے اس کو دھند نہیں سموگ کہتے ہیں ۔ پھر جھوٹ تو نہیں کہتے ۔ بارشیں بھی تو نہیں ہو رہیں۔ خشک سردی کا دور چل رہاہے۔سورج جو گرمیوں میں آگ برساتا ہے ۔ان دنوں سویرے مشرق سے طلوع تو ہوتا ہے مگر انہتائی لاغر اور کمزور کسی غریب اور نادار نوجوان کی طرح ۔ وہ جو شباب و جوانی کے ہوتے سوتے غربت زدہ ماحول کی وجہ سے دبکا ہوتا ہے ۔کام کاج کے لئے فجر کے فوراً بعد گھر سے نکلنے والے جانتے ہیں کہ اس وقت جب دانت بج رہے ہوتے ہیں تو ایک مہین سی خاموشی ہو تی ہے ۔کیونکہ ابھی شہر کی فضا شور سے آلودہ نہیں ہوئی ہوتی ۔ابھی گاڑیوں کے دھوئیں شہر کے ماحول کی ہوا کو تاراج نہیں کر رہے ہوتے۔ رش کا عالم نہیں ہوتا ۔بس جس کا کام ہے وہی صبح سویرے نکلے گا۔ بستروں میںدبکے رہنا تو اس وقت آدمی کی شدید ترین خواہش ہوگی ۔مگر مجبوری بھی تو کسی چیز کا نام ہے ۔سورج بھی اپنا روزکا چکر جلدی مکمل کرکے آشیانہ ¿ مغرب میں جاکر چھپنا چاہتا ہے ۔گرمیوں میں تو دن بارہ بجے سورج جیسے سوا نیزے پر ہوتا ہے۔ عین سر کے اوپر لہراتا ہے ۔ جیسے کسی جلاد کا کوڑا عاجز مسکینوں کے سروں پر بجتا ہے ۔ مگر ان سرد ایام میں سورج بھی چھپتا چھپاتا جنوب کی طرف جھک کر گذرتا ہے ۔کہر کا مارا ہوا سورج شام کا ستارہ بن جاتا ہے جوہوا چلنے کے وقت لرزتا ہے ۔پھر دن چڑھ آئے تو دھوپ میں بیٹھنے والے بھی اس ہوا کے سنگ پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیںکہ اب کہا ںجایا جائے۔یہا ںتو آج کل طلوعِ آفتاب میںغروبِ آفتا ب کا منظر محسوس ہوتا ہے ۔ کیونکہ شفق میں جیسی یخی شام کے وقت ہوتی ہے وہی اس طلوع کے وقت سورج کے آہستہ آہستہ اوپر آنے میں محسوس ہوتی ہے ۔بادل نہیں ہوتے مگر یوں لگتا ہے کہ دھند نے بادلوں کی شکل بدل لی ہے اور سورج اس پردے کے پیچھے سے چھپ چھپ کر دیکھتا ہے ۔پھر یہاں کی شام بھی کون سی کھل کھلاتی ہے ۔صبح و شام ایک ہی جلوہ ہے ۔وہی شفق کی لالی اور وہی سورج کا چپ کی چادر اوڑھ کر غرب میں غروب ہونا ۔فضا میں روشنیاں تو ہوتی ہے ۔کہیں کہیں بلب جل رہے ہوتے ہیں ۔ بڑے قمقمے شاپنگ مال کے باہر روشن ہوتے ہیں۔مگر آسمان کی فضا دھوا ں دھار ہوتی ہے ۔اس طرح کہ شام کے وقت کی دھند ہو ۔سڑکیں شام کو بھی سرمئی چادر میں لپٹ جاتی ہیں اور صبح سویرے بھی یہی کیفیت ہوتی ہے ۔دن بھر کے تھکے ہارے اکثر تو بستروں میں دبک کر اپنی تھکاوٹ کے اندر ہی پناہ لئے پلکوں پہ نیند کی تھپکی محسوس کرتے نیند کی آغوش میں محوِ خواب رہتے ہیں۔پھر جن کی پلکوں پر کھڑکی کے شیشے سے سورج کی روشنی کی شعاعیں آہستہ آہستہ دستک دے کر انھیں جگانے کی کوشش میں ہوتی ہیں وہ عام طور سے اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوپاتیں۔۔اس وقت جب رات کے کوے نے اپنے انڈے مغرب کے گھونسلے میں چھپا دیئے ہوتے ہیںیعنی صبح ہوتی ہے تو اس منظر کو اوپن ایئر میں دیکھنے والے بہت خوش قسمت ہیں۔اس وقت کی سردی سے ڈرنے والے تو ڈرے سہمے رہتے ہیں۔مگر بوڑھے بھی دل سے جوان ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کے ساتھ باغوںپارکوں اور کھلے مقامات پر ورزش کے دوران میں ہاتھ پا¶ں پھلاتے ہلاتے اڑاتے ہوئے گیت گاتے ہیں۔”آئے موسم رنگیلے سہانے “۔کوئی ڈنٹ پیل رہا ہوتا ہے اور کوئی باغ میں دائرہ کے اندر جوگنگ میں مصروف ہوتاہے۔حتیٰ کہ خواتین بھی ٹوپی والا برقعہ پہن کر سڑکوں پر واک کرتی ہیں۔آج کل کی ناقص خوراکوں اور بیماریوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے شہریوں کا رجحان قدرتی طور پر ورزش کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔کیونکہ لگتا ہے بیماریاں زیادہ ہونے لگی ہیں ۔ہمارے شہر سے ہٹ کر دوسرے بڑے شہروں میں صبح کے وقت ورزش کے یہی نظارے ہیں۔صحت بہت بڑی دولت ہے ۔مگر کیا ہے جو قدرت نے دیا ہے او ر وہ دولت نہیں۔ مگر انسان جو شکر اداکرے وہی سمجھ رکھتا ہے ۔باقی وہ جو سب کچھ ہوتے ہوئے حیران و پریشان ہوتے ہیں پریشان رہتے ہیں ۔صرف پانچ منٹ کے لئے آنکھیں بند کر لیں اورمحسوس کریں کہ شاید میں نہیں دیکھ پا¶ں گا تو اپنی آنے والی ساری زندگی ایک وبال آزار ایک نہ سر ہو سکنے والا پہاڑ محسوس ہونے لگتی ہے۔پھر جب آنکھیں کھولے اور قدرت کی اس رنگین دنیا کو نئے انداز سے دیکھے گا۔ وہ محسوس کرے گا کہ آنکھیں بڑی دولت ہیں۔پھر دنیا تو واقعی بہت خوبصورت ہے ۔جو نہیں دیکھ سکتے ان کی آنکھوں سے دیکھیں تو معلوم ہو کہ خلاقِ ازل نے دنیا جہان میں کتنی خوبصورتیاں تخلیق کر رکھی ہیں۔ہمارے ہاں کے چار موسم گرمی سردی خزاں بہار سب اس کے وجود کی دلیل ہیں۔