کرکٹ: اعتماد اور بھروسے کی بحالی۔۔۔۔

پاکستان میں امن و امان اور عالمی کرکٹ کی بحالی ایک دوسرے سے لازم وملزوم (مشروط) تھے۔ بداعتمادی کے بادل چھٹ رہے ہیں۔ بھروسہ بحال ہو رہا ہے۔ چودہ برس کے طویل انتظار کے بعد ’جنوبی افریقہ‘ کی کرکٹ ٹیم پاکستان پہنچ چکی ہے۔ مہمان ٹیم دو ٹیسٹ میچوں پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کھیلے گی جبکہ اس دورے میں ایک روزہ سیریز کی بجائے تین میچوں پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی سیریز رکھی گئی ہے کیونکہ تیزرفتار کرکٹ پاکستان اور جنوبی افریقہ میں یکساں مقبول ہے۔ کم دورانئے کے اِس کھیل کا تعلق کھلاڑیوں کی مہارت سے زیادہ اُن کے اعصاب کی مضبوطی سے ہوتا ہے۔ سال 2007ءمیں جنوبی افریقہ کا دورہ کئی وجوہات کے سبب منفرد حیثیت کا حامل تھا تب بھی جنوبی افریقائی ٹیم ایک ایسے وقت میں پاکستان پہنچی تھی جب دیگر ممالک کی ٹیموں کے کھلاڑی آنے سے گریزاں تھے۔ درحقیقت کراچی کی بدنصیبی کا آغاز اُس وقت ہوا تھا جب 2002ءمیں ایک مقامی ہوٹل کے باہر بم دھماکا ایک ایسے وقت ہوا‘ جب وہاں مقیم نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نیشنل سٹیڈیم جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اِس دہشت گرد حملے کے بعد کراچی میں بین الاقوامی کرکٹ طویل عرصے تک تعطل کا شکار رہی جو اب بحال ہونے جا رہی ہے۔بھارت نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور حکومت کی جانب سے حفاظت کی یقین دہانی کے بعد 2004-05ءکے دورے کے دوران کراچی میں بمشکل ایک روزہ میچ کھیلنے کی حامی بھری تھی لیکن اس کے برخلاف جنوبی افریقہ نے پاکستان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کراچی میں ٹیسٹ میچ کھیل کر جس خیر سگالی کا مظاہرہ کیا تھا وہ احسان کراچی کے لوگوں خصوصاً کرکٹ شائقین ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ سال 2007ءہی میں ویسٹ انڈیز میں کھیلا جانے والا عالمی کپ پاکستان کے لئے تباہ کن ثابت ہوا۔ اُس عالمی کپ مقابلوں میں ناقص کارکردگی کو پاکستان کے کوچ باب وولمر کی اچانک موت نے پس پشت ڈال دیا لیکن جیسا کہ ٹیم گرین کی روایت ہے کہ ہر ناکامی کے بعد قومی ٹیم کی از سرِ نو تشکیل کی جاتی ہے تب بھی ایسا ہی ہوا۔ پاکستان کی کپتانی کا تاج شعیب ملک کے سر پر سجا دیا گیا جنہوں نے جنوبی افریقہ میں منعقد ہونے والے ٹی ٹوئنٹی کے پہلے عالمی کپ سے اپنے کپتانی کے سفر کا آغاز کیا۔ پی سی بی نے اس وقت بھی نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دینے کا اعلان کیا لیکن تجربہ کار یوسف کی جگہ ان کے ہم عمر مصباح الحق کو ترجیح دی گئی۔ اُس ٹورنامنٹ میں مصباح الحق نے عمدہ کارکردگی دکھائی اور اس کارکردگی کے صلے کے طور پر ان کو چار سال کے طویل وقفے کے بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان کا دورہ کرنے والی جنوبی افریقہ کی ٹیم کے خلاف ٹیسٹ میچ کی ٹیم میں منتخب کرلیا گیا۔ لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ جب جنوبی افریقی ٹیم اگلی مرتبہ پاکستان کے دورے پر آئے گی تو اسی مصباح الحق کے سر پر ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے سب سے کامیاب کپتان ہونے کا تاج سج چکا ہوگا اور وہ پاکستان کے ہیڈ کوچ بھی ہوں گے۔سال دوہزارسات کے دورہ پاکستان کے دوران جنوبی افریقہ کی ٹیم میں شامل ان کے وکٹ کیپر مارک باو¿چر چودہ سال کے طویل عرصے بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں لیکن اس مرتبہ وہ بطور کھلاڑی نہیں بلکہ مہمان ٹیم کے ہیڈ کوچ کی حیثیت سے ایک ایسی ٹیم کے ہمراہ آئے ہیں جس کے تمام ہی کھلاڑی پہلی مرتبہ پاکستان میں ٹیسٹ میچ کھیلیں گے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ سال دوہزارسات میں جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی جانے والی ٹیسٹ سیریز میں پاکستانی ٹیم میں شامل دو کھلاڑی مصباح الحق اور یونس خان بھی موجودہ قومی ٹیم کے کوچ کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ چودہ سال کے طویل عرصے میں دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ آج ٹیکنالوجی کا دور ہے جس میں ریڈیو کمنٹری کی جگہ لائیو سٹریمنگ نے لے لی ہے۔ آج ذاتی موبائل فون اور انٹرنیٹ کنکشنز عام ہیں۔ لوگ راہ چلتے کھیل کی صورتحال ایک دوسرے سے پوچھنے کی بجائے خود اپنے موبائل سے اپنی پسند کی ویب سائٹ پر جاکر میچ کی تازہ صورتحال جان سکتے ہیں۔ ماضی میں چائے کی دکانوں یا کھانے پینے کے مختلف اسٹالز پر بلند آواز میں چلنے والی ریڈیو کمنٹری سننے والوں کا رش لگ جاتا تھا لیکن ایڈوانس ٹیکنالوجی کے اس دور میں لوگ کرکٹ کے کھیل سے انفرادی طور پر لطف اندوز ہونا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کرکٹ کے ساتھ جڑی اِس کی روایت پاکستانیوں کےلئے کئی دلچسپ پہلو رکھتی ہے اور اُمید یہی ہے کہ پاکستان کے کرکٹ شائقین کو ٹیم گرین کی فتوحات دیکھنے کا موقع ملے گا اگرچہ ٹیسٹ کرکٹ میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیم گرین کا ماضی (ریکارڈ) خاصا خراب ہے۔ دونوں ممالک کے مابین اب تک کل گیارہ ٹیسٹ سیریز ہوئی ہیں جن میں سے پاکستان صرف ایک مرتبہ یعنی دوہزارتین میں ٹیسٹ سیریز جیتی تھی۔ دوہزارسات کی ٹیسٹ سریز میں بھی جنوبی افریقہ نے کامیابی حاصل کی تھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹیم گرین کے نئے کپتان بابر اعظم اور یوسف کے بعد کیا پاکستان کو کوئی دوسرا ایسا کپتان مل سکے گا‘ جو اِسے جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں فتح دلوائے۔ اُمید پر دنیا قائم ہے۔