ٹرمپ کا ورثہ اور جو بائیڈن۔۔۔۔

صدرجوبائیڈن جونیئر نے امریکہ کے چھیالیسوں صدر کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔اس کے ساتھ ڈونلڈ جے ٹرمپ کا چار سالہ ہنگامہ خیز دور اختتام کو پہنچ گیا۔ حلف اٹھانے کے بعد جو بائیڈن وائٹ ہاو¿س پہنچے تو انہوں نے سترہ ایسے انتظامی اور پالیسی احکام جاری کردیئے جن کے ذریعے انہوں نے اپنے پیش رو ٹرمپ کے کئی احکامات ختم کردیئے۔ ان میں مسلمانوں اور افریقی ممالک کے لوگوں کو امریکہ آمد کی اجازت، ماحولیات,کورونا وائرس اور معیشت وغیرہ پر پالیسی احکام شامل ہیں۔جو بائیڈن کی حلف برداری میں نہ پہلے کی طرح ان کے پیش رو ٹرمپ اپنے جانشین کے پیچھے بیٹھے تھے اور نہ اس میں لاکھوں لوگ شریک تھے مگر جو بائیڈن نے اپنے خطاب میں جو امید افزا باتیں کیں اور ایک بائیس سالہ نوجوان سیاہ فام شاعرہ امینڈا گورمین نے جو بہترین شعر سنائے انہوں نے امریکیوں اور دنیا بھر میں امن ، انصاف اور جمہوریت کے علم برداروں کو امریکہ اور جمہوریت کے اچھے مستقبل بارے مایوسی سے نکال دیا۔ امینڈا گورمین نے جب اپنی شاعری ختم کی تو چار سابق امریکی صدور اور دو نائب امریکی صدور نے اپنے اہل خانہ اور وہاں موجود تمام سرکاری اہلکاروں سمیت کھڑے ہوکر اس کو داد دی۔ بہت سے اس نظارے پر وہاں اور ٹی وی سکرینوں کےسامنے آبدیدہ ہوگئے۔ ٹرمپ کی سیاہ فام دشمنی کے علی الرغم ایک سیاہ فام امریکی نائب صدر نے بھی حلف اٹھا کر تاریخ رقم کردی۔اپنے پہلے صدارتی خطاب میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا "آج امریکا اور جمہوریت کا دن ہے، آج جمہوریت کامیاب ہوئی ہے ، میں امریکی آئین کی طاقت پر یقین رکھتا ہوں۔ہمیں بہت کچھ درست کرنا ہے، بہت سے زخموں پر مرہم رکھنا ہے۔نسلی امتیاز کے خاتمے کا خواب اب مزید ٹالا نہیں جا سکتا۔ مجھے یقین ہے امریکہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوسکتا ہے، اور ہم اپنے اختلاف بغیر لڑائی اور بغیر تشدد حل کیے جا سکتے ہیں جو میرے خلاف ہیں، ا±ن سےکھنا چاہتا ہوں مجھ سے بات کریں۔میں سب کا صدر ہوں، ا±ن کا بھی صدر ہوں جنہوں نے میرے خلاف ووٹ دیا۔بائیڈن کی آمد امید ہے دنیا میں جمہوریت اور آزادی کو مضبوط کریگی اور امریکہ میں نسلی، علاقائی اور مذہبی عصبیتوں کے خاتمے کی نوید لے کر آئے گی۔ مگر حقیقت یہ ہے ٹرمپ حکومت نے امریکہ کے سماج، نظام، اداروں اور معاشرہ پر جتنے اور جیسے تباہ کن اثرات ڈالے ہیں ان سے سے لمبے عرصے تک امریکی قوم نبرد آزما رہے گی۔ٹرمپ اگر صرف ایک تاجر یا عام امریکی ہوتا تو اس کے اقوال و افعال کا اتنا نقصان نہ ہوتا۔ افسوس کہ انہوں نے اپنا مستقبل، اپنی عزت اور ٹرمپ کمپنی کی تجارتی سلطنت تو داو¿ پر لگا دی لیکن ذاتی مفاد، جھوٹ، فریب اور سازشوں پر بنی ہوئی اپنی حکمت عملی کے ذریعے امریکی ریاست، معاشرے اور جمہوریت کو بھی تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ٹرمپ کو اپنے پیش رو صدر اوبامہ سے جو امریکہ ملا تھا انہوں نے اپنے جانشین کو اس سے زیادہ سماجی طور پر منقسم، مالی طور پر کمزور، عالمی سطح پر بدنام، سیاسی طور پر خطرے سے دوچار اور اخلاقی طور پر مضمحل امریکہ حوالے کر دیا ہے۔امریکہ یقیناً خوش قسمت ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر پر ہر لمحہ بغیر سوچے سمجھے بولنے والے انتہائی خودپسند، من موجی، طاقت ور اور انتہاپسند صدر ٹرمپ کی سازشوں ، ان کی ہر غلط بات پر اکثر خاموش یا راضی رہنے والی ریپبلکن پارٹی کی سیاسی مفادپرستی اور طاقت ور اداروں کی جانب سے بزدلی یا لاپرواہی کی وجہ سے ان کا بروقت تدارک اور مقابلہ نہ کرنے کے باوجود امریکہ قائم رہا۔ نہ وہاں خانہ جنگی پیدا ہوئی، نہ ٹرمپ نے کسی ملک کے خلاف جنگ چھیڑی اور نہ انہوں نے کسی دشمن پر ایٹم بم چلایا مگراب امریکی قوم کو ٹرمپ کی پھیلائی گئی نفرت اور تعصب کے اثرات سے نجات کےلئے محبت، ہمدردی، نسلی و مذہبی رواداری اور احترام کا انقلاب برپا کرنا ہوگا اور بدی کے بجائے خوش اخلاقی کو قومی شعار بنانا ہوگا۔اس سے پہلے کسی امریکی صدر نے اپنی میعاد کے دوران موبائل اور سوشل میڈیا استعمال نہیں کیا تھا مگر ٹرمپ ٹوئٹر، فیس بک، یو ٹیوب اور انسٹاگرام پر ہر وقت خبروں میں رہتے۔ اپنے سیاسی مقاصد کےلئے انہوں نے ڈھٹائی اور بدنیتی سے ان گنت جھوٹے سازشی نظریات پھیلائے جنہوں نے کروڑوں افراد کو گمراہ کیا۔ انہوں نے سیاہ فاموں کے خلاف نسلی منافرت پھیلائی اور ان کا مذاق اڑایا۔ سفید فام انتہاپسندی کو فروغ دیا۔ انہوں نے ملک کے اندر سیاسی مخالفین سے دشمنی کی اور ان کو پھانسنے کےلئے یوکرائن اور روس وغیرہ سے مدد لینے کی کوشش کی مگر حیران کن طور پر امریکہ کے دشمنوں کےلئے وہ بڑے نرم تھے۔ انہوں نے روس کے پیوٹن، چین کے شی جن پنگ، مصر کے الفتح السیسی، برازیل کے جیئر بولسو نارو وغیرہ جیسے آمروں سے راہ و رسم بڑھائے اور کینیڈا کے جسٹن ٹروڈو اور جرمنی کے انجیلا مرکل وغیرہ جیسے عوام کے منتخب رہنماو¿ں کیلئے اپنی ناپسندیگی نہیں چھپائی۔ بلکہ انہوں نے تو امریکہ کے صحافی باب وڈورڈز کو مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ جو رہنما جتنا زیادہ سخت اور کمینہ ہوتا ہے، میں اس کےساتھ چلنے میں آسانی محسوس کرتا ہوں۔ انہوں نے آزاد منش صحافیوں کا ہمیشہ مذاق اڑایا، اکثر میڈیا کو بکاو¿مال اورجھوٹا کہا اور اپنے سیاسی مخالفین کا مقاطعہ کیا۔ ان کی حکومت کا ورثہ یہ ہے کہ ضروایات، اصولوں، اخلاقیات اور قانون کی خلاف ورزی، جھوٹ بولنے اور بدخلقی میں تو انہوں نے نئے ریکارڈ قائم کئے۔۔مگر یاد نہیں پڑتا کبھی ایک بار بھی انہوں نے ہمدردی، مہربانی، محاسبہ نفس اور اپنے ملکی مخالفین سے رابطے کے سلسلے میں کوئی قدم اٹھایا ہو۔ پھر انہوں نے انتخابات میں اپنی شکست تسلیم نہیں کی اور انتخابات بارے دھاندلی اور دھوکے کے بے بنیاد الزامات لگائے۔ درجنوں بار عدالتوں نے انہیں جھوٹا قرار دیا مگر آخر تک وہی راگ الاپتے اور انتخابی نظام پر عوامی اعتماد کو متزلزل کرتے رہے۔ قوم رہنماو¿ں سے اچھائی، مساوات، عدل، برداشت اور اصول پسندی کی توقع کرتی ہے۔ ٹرمپ نے مگر غلط طرزعمل کے ریکارڈ بنائے۔ یہ بے عزتی بھی ٹرمپ اور ان کی وجہ سے امریکہ کو گوارا کرنی پڑی کہ مختلف سوشل میڈیا پر ان کا اکاو¿نٹ عوامی گمراہی اور نقصان کے خدشے سے بلاک کردیا گیا۔ہر امریکی کو یہ عہد کرلینا چاہئے کہ میں امریکہ کے آئین اور جمہوری روایات کو برقرار رکھوں گا، ان پر عمل کروں گا اور ان کی حفاظت کروں گا۔ اسے ٹرمپ کی اور امریکی قانون و آئین کو پامال کرنے میں اس کی مدد کرنے والوں سیاستدانوں، صحافیوں اور صحافتی اداروں کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔امریکی تاجروں کو وہاں کے انتخابی نظام بارے سازشی نظریات پھیلانے والے میڈیا اداروں اور صحافیوں کواشتہار نہیں دینے چاہئیں۔ پوری امریکی قوم کو ٹرمپ کمپنی کا بائیکاٹ بھی کرلینا چاہئے۔