اعلیٰ تعلیم اور پرائیویٹ اُمیدوار۔۔۔۔۔

یہ با ت بے حد خوش آئند ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے تعلیمی سال اپریل کی جگہ اگست میں شروع کرنے کی کا میاب حکمت عملی طے کی ہے اس فیصلے کا ڈیڑھ سال سے انتظار کیا جا رہا تھا اس سلسلے میں صوبے کے تما م انٹر میڈیٹ اور سیکنڈری بورڈوں کو ہدا یا ت جاری کر دی گئی ہیں اچھی خبر کے ساتھ بری خبر بھی آئی ہے اور یہ تیسری بار ہے کہ ایک ہی بری خبر آرہی ہے نہ سول سو سائٹی کی طرف سے ا س پر کوئی ردّ عمل سامنے آیا ہے نہ ار کان اسمبلی نے اس کا نو ٹس لیا ہے بری خبر یہ ہے کہ وفا قی حکومت نے پرائیویٹ امتحا ن کے ذریعے بی اے اور ایم اے کرنے پر مکمل پا بندی لگائی ہے حقیقت یہ ہے کہ پشتو ، اردو، اسلا میات ، عربی ، انگریزی ، تاریخ ، معا شیات ، سیا سیات اور آرٹس کے دیگر مضامین کےلئے لیبارٹری میں پریکٹیکل کام کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے ان مضا مین کے اُمید وار وں کو پرائیویٹ امتحا ن دینے کی اجازت انگریزوں کے زما نے سے دی گئی تھی اس امتحا ن پر فنی اور تکنیکی لحا ظ سے کوئی اعتراض نہیں ہو اتھا یہ اعلیٰ تعلیم کا ایسا نظام تھا جس کے ذریعے غریب لو گ محنت مزدوری بھی کر تے تھے اپنی تعلیم بھی جاری رکھتے تھے ایک بڑے ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے ایک اکیڈ یمی کی بڑی تقریب میں اپنی تعلیم کی روداد سنا تے ہوئے کہا کہ میرے والدین غریب تھے تیسری جماعت تک میرے پا س کتا بیں نہیں ہو تی تھیں اس کے بعد میری ماں پڑوس کے اندر پا س ہونے والے لڑ کوں کے والدین سے پرا نی کتا بیں لا کر مجھے دینے لگی آٹھویں جما عت پا س کر کے میں نے مزدوری شروع کی دسویں سے لیکر ایم اے تک میں نے پرائیویٹ پا س کر لیا جب ایف اے کے بعد ریلوے میں مجھے نو کری ملی تو دفتر کے دو ساتھی سی ایس ایس کا امتحا ن دے رہے تھے گریجو یشن کے بعد میں نے بھی سی ایس ایس کےلئے تیاری شروع کی اور خدا کی مہر با نی سے پا س بھی ہوا میرٹ پر بھی آیا سر کاری آفیسر کی حیثیت سے میں سکا لر شپ پر لندن سکول آف اکنا مکس میں داخل ہوا وہاں ایک دن ہم سے کہا گیا کہ اپنی تعلیمی کا میا بیوں کی کہا نی لکھو ، میں نے بلا کم و کاست یہ کہا نی لکھی ایک ہفتہ بعد سکول میں بڑا پرو گرام تھا پرو گرام میں میری کہا نی پیش کی گئی اور کہا گیا کہ 60سال پہلے افریقی ملک سے آنے والے سٹو ڈنٹ نے ایسی ہی کہا نی لکھی تھی ایسا سٹو ڈنٹ لنڈن سکول آف اکنا مکس کے لئے باعث فخر ہو تا ہے اس قسم کے کردار ہماری یو نیورسٹیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جنہوں نے غر بت کے باو جود مشکل حا لا ت میں پرائیویٹ امتحان کے ذریعے اعلیٰ تعلیم حا صل کی پرائیویٹ امتحا ن پر پا بندی لگا کر حکومت نے ملک کی 82فیصد غریب آبا دی کےلئے اعلیٰ تعلیم کا راستہ بند کر دیا ہے جرم یہ ہے کہ تم غریب کیوں ہو ؟ غریب ماں باپ کے گھر میں کیوں پیدا ہوئے ؟ چنا نچہ اب نئی پالیسی کے تحت اسلا میات ، پشتو ، اردواور آرٹس کے دیگر مضا مین لیکر اعلیٰ تعلیم کا شوق پورا کر نے والے سمسٹر سسٹم میں ریگو لر پڑھیںگے اگر ریگو لر پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو اعلیٰ تعلیم کےلئے سوچنے کا حق بھی نہیں رکھتے اب لو گ حیران ہیں کہ یہ فیصلہ کس نے کیا ؟ اس پر حیرت اور تعجب کی ضرورت نہیں فیصلہ کرنے والے وہ لو گ ہیں جنہوں نے پا کستان کے دیہات نہیں دیکھے جنہوں نے ہماری کچی آبادیاں نہیں دیکھیں فیصلہ کرنے والے وہ لو گ ہیں جو غریبوں کے حا لات سے یکسر بے خبر ہیں ان کو پتہ نہیں کہ 2مہینے کی چھٹیوں میں سکو لوں اور کا لجوں کے 60فیصد طلباءمزدوری پر جا تے ہیں اور ما ں باپ کےلئے دو مہینوں کا خر چہ کما کر لا تے ہیں ہمارے سکو لوں اور کا لجوں میں 40فیصد طلباءایسے بھی ہیں جو روزانہ سکو ل کے بعد مزدوری اور چھا پڑی کے ذریعے 5گھنٹے کا م کر کے گھر کے اخراجا ت پورے کر تے ہیں یہ بچے پرائیویٹ تعلیم کے ذریعے بی اے اور ایم اے کر نے کا شوق رکھتے ہیں پرائیویٹ امتحا ن پر پا بندی لگا کر حکومت نے 82فیصد غریبوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔