یہ لوگ مریض کو ہزار دو ہزار نہیں دیتے کہ وہ دوا خرید لے۔کیونکہ اس کی گولیاں ختم ہو چکی ہوتی ہیں۔ بعض مریض تو گولیوں پر زندہ ہوتے ہیں۔ ایسا کہ روٹی نہ کھائیں مگر گولیاں ضرور کھائیں ۔ مگر جب مریض دوا نہ ملنے کے وجہ سے موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے تو اس کے کفن دفن کےلئے سارا محلہ اکٹھا ہو جاتاہے یہی مرکزی خیال پریم چندکے اردو افسانے” کفن“ میں بھی بیان ہوا ہے ۔یہ دل کو چھو لینے والا افسانہ ہے۔ پڑھنے لائق ہے ۔ اردو افسانہ نگاری میں شاہکار افسانہ ہے ۔ہمارے ہا ںاشفاق احمد نے اسی طرح کا ایک افسانہ لکھاہے ۔اس افسانے کانام ”محسن محلہ“ ہے ۔دو نوں رائٹر اب دنیا میں نہیں ۔کرداروں کے نام اور کہانی الگ الگ ہے ۔مگر تھیم ایک ہے ۔المیہ ہے کہ ہم ایک ضرورت مند کو تھوڑی سی رقم اس کے زندہ ہوتے نہیں دیتے ۔ ہر چند وہ نہیں مانگے مگر اس کے آس پاس کے لوگوں رشتہ داروں دوستوں کو اس کا احوال معلوم ہوتا ہے ۔ مگر یہ تو دنیا ہے ۔یہاں کون کس کا ہے ۔ کسی کے ساتھ بھلاکرنا ہے تو یہیںکر لیا جائے ۔جہاں ہمارے پا¶ں اس زمین کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ دوسرے جہاں میں توماں اپنے بچے کے کام نہیں آئے گی۔وہاں نیکی کرکے اپنی آخرت سنوارنے کاموقع نہیں ملے گا۔آغا حشر کاشمیری کے ایک ڈرامے ” خوبصورت بلا“ میں یہ مکالمہ تحریر ہے کہ ”دنیا کی مٹی خود غرضی اور لالچ کے پانی سے گوندھی گئی ہے “۔ ہاں پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ بھلے مانس لوگ بھی ہوتے ہیں ۔ جو کسی مریض کو دوا نہ ہوتو مرنے نہیں دیتے۔اشفاق احمد نے بہت خوبصورت افسانہ لکھا ہے ۔ یہ دونوں افسانے ہمارے ہاں اردو کی کلاسو ں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ہم نصیحت کی بات ایک کان میں ڈال کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں ۔کیونکہ ہمیں اپنافائدہ عزیزہوتا ہے ۔ہم یہی کہتے ہیں کہ پہلے اپنے مسئلے حل کرو ۔دیکھا جائے گا۔ یہ افسوس ناک رویہ ہمارے معاشرے میں عام پایا جاتا ہے۔ بس اپنے لئے ہی جیا جاتا ہے ۔ حالانکہ زندگی کامقصد یہ نہیں ۔ محسن محلہ نام کے اس افسانے میں ایک استاد کاذکر ہے ۔جس کے پاس اپنی کوٹھری کا چھے ماہ کا کرایہ نہیں ہوتا ۔ مکان مالک اس کو ستاتا ہے۔دہلیز پر آکر اس کو تڑیاں دیتا ہے ۔کہہ کر چلا جاتا ہے کہ اس بار تو وہ کوئی رعایت نہیں کرے گا۔ماسٹر صاحب اپنے جاننے والوں اور دوسرے لوگوںسے رابطہ کرتے ہیں کہ میرے پاس لے دے کر کچھ رقم ہے مگر وہ کافی سے زیادہ ناکافی ہے ۔مگر کسی کو ان پر رحم نہیں آتا۔ راہ چلتے ہو¶ںکو کون ادھار دیتا ہے ۔مسافروں کی بھی بھلاکیاساکھ اورکیا اعتبار ہوتا ہے۔کیا خبر ماسٹر صاحب کون ہیں کہاںسے آئے ہیں ۔مکان مالک آخر اس کا سامان اس کے گھرسے باہر نکال کر پھینک دیتا ہے۔گھر کے باہر بجلی کے ٹرانسفارمر کے دو کھمبوں کے درمیان سخت سردی میں ماسٹر صاحب کی چارپائی بچھا دی جاتی ہے ۔وہ اپنے اوپر لحاف لپیٹ کر چارپائی پر بیٹھے ہوتے ہیں۔جو لوگ وہاں سے گذرتے ہیں ماسٹر صاحب کو سلام کئے بغیر نہیں گذرتے ۔ پوچھتے ہیں کیوں کیا ماسٹر صاحب دھوپ سینک رہے ہیں ۔ماسٹر صاحب کمزوری میں آہستگی سے” جی ہاں “ کہہ دیتے ہیں ۔ماسٹر صاحب کو ہفتہ بھر میںیہاں نمونیہ ہو جاتا ہے ۔ایک دن فجر کے وقت ماسٹر صاحب کے مرنے کی خبر پھیل جاتی ہے ۔ علاقے کا امیر شخص سکوٹر لے کر فوراًوہاں پہنچ جاتا ہے ۔دریاں بچھا دی جاتی ہیں۔حلوائی دودھ پتی کا ایک پتیلا کاڑھ کر وہاں صف میں بچھاتا ہے ۔پیسے دے کر چند لوگوں کو قبر کے لئے روانہ کر دیا جاتا ہے ۔کفن کے لئے بھی رقم اکٹھی ہو جاتی ہے ۔سوئم تک کےلئے اتنااکٹھا ہو تا ہے کہ چھے مہینوں کا چھوڑ چھبیس مہینوں کا کرایہ ادا ہو سکتا تھا۔ پریم چند کے افسانے میں بھی یہی فضا ہے ۔خاتون کی بیماری کےلئے گا¶ں والوں نے کچھ نہ دیا ۔مگراس کے مرنے کے بعد اس کے لئے اچھی خاصی رقم جمع ہوگئی ۔