ہمارے ہاں انگریزی وہ بولتے ہیں جن کو انگریزی نہیں آتی ۔جن کو آتی ہے وہ آپ کو انگریزی بولتے ہوئے نہیں ملیں گے۔ انگلش اکیڈمی میں تقریروں کا مقابلہ تھا۔ میں وہاں مہمانِ خصوصی تھا۔سارا معاملہ اسی غیر زبان میں تھا۔ طالب علم آئے بولے اور چلے گئے۔لڑکیاں بھی تھیں اور لڑکے بھی ۔ حالانکہ وہ انگریز نہ تھے۔ اول دوم سوم میں ایک بچی بھی تھی۔ آخر میں مجھے سٹیج پر بلایا گیا۔ میں نے سٹارٹ تو انگریزی میں لیا۔ منٹ دو منٹ بولا اور پھر پٹڑی سے جو اترا تھا تو واپس آگیا۔ اردو میں شروع ہوگیا۔ میں نے انگریزی زبان کی ہمارے معاشرے میں اہمیت کو اجاگر کیا۔کہا ہر چند انگریزی ہماری مادری زبان نہیں ہے ۔بلکہ اردو بھی ہماری مادری زبان نہیںہے۔مگر اردو قومی زبان ضرور ہے ۔صوبہ خیبر پختونخوا میں پشتو کا راج ہے اور پنجاب میں پنجابی کی دھوم ہے۔جبکہ سندھ میں سندھی زبان حکومت کرتی ہے ۔پھر بلوچستان میں بلوچی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ اس کے علاوہ ہر صوبہ میں ان زبانوں کے ساتھ ساتھ دوسری زبان بھی بولی جاتی ہے۔پشتو کے ساتھ ہندکو اور پنجابی کے ساتھ سرائیکی ۔سندھی کے ساتھ اردو اور بلوچی کے ساتھ براہوی۔ ہمارے ہاں اورزبانیں بھی ہیں چترالی شینا بلتی وغیرہ وغیرہ ۔انگریزی تو خیر ہمارے ہاں کہیں بھی بطور مادری زبان نہیں بولی جاتی جبکہ اردو صرف اور صرف کراچی شہر میں مادری زبان کی حیثیت سے بولی جاتی ہے۔ وہ مسلمان جو پاکستان کے قیام کے ساتھ ہندوستانی صوبہ یوپی سے کراچی آکر بس گئے ان کی مادری زبان اردو ہے ۔وہ لوگ پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی بہت کم جا کر آبادہوئے۔مگر چونکہ ہمارے ایک صوبے کی زبان دوسرے صوبے والے نہیں سمجھ پاتے ۔اس لئے ارود زبان کوپاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو زبان میں اتنی خاصیت ہے کہ یہ پورے ملک میں ہر جگہ بولی جاتی ہے اور کمال ہے کہ دوسرا اگر اردو نہ بول سکتا ہو مگر اردو بولنے والے کی بات کو سمجھ ضرور جاتا ہے۔اب ایسے میں انگریزی زبان کا ہمارے ہاں کیا مقام ہے ۔ انگریزی تو ہمارے حاکم بولتے ہیں وہ بھی سیاسی نہیں بلکہ دفتری حکام ِ بالا بول سکتے ہیں۔ ہمارا سارا دفتری نظام انگریزی میں ہے ۔ہمارے آئین کی جن شقوں پر عمل درآمد نہ ہونے کا رونا رویا جاتا ہے ان میں ایک شق یہ بھی ہے کہ ”پاکستان کی دفتری زبان اردو ہوگی“۔انگریزی کو ہم نے بولنا ہے ۔ کیونکہ ترقی یافتہ ملکوں سے جو علم آرہاہے وہ انگریزی میں ہے ۔اگر ہم انگریزی کو سمجھ نہ پائے اور بول نہ پائے تو ہم نے کبھی آگے نہیں بڑھنا۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انگریزی کو دفتری زبان کے طور پر نافذ رہنے دیا جائے۔ ہماری اصل ترقی تو اس دن سے شروع ہوگی جب ہماری قومی زبان اردو کو دفتری اور نصاب کی زبان بنا دیا جائے۔یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں۔سب کام ہو چکا ہے ۔سب کچھ اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔اب اگر ضرورت ہے تو صرف وزیرِ اعظم کے ایک حکم کی ۔وہ یہ کہ ”آج کے بعد اردو کوہم نے دفتری زبان بنادیا ہے سب تعلیم اردو زبان میں دی جائے گی“۔اب جو اعلیٰ ترقی یافتہ ممالک ہیں وہاں ان کا تعلیمی کورس اور سب کچھ ان کی اپنی قومی زبان میں ہے ۔چین، کوریا، فرانس ، روس، ایران دیگر ممالک میں بھی جو سائنسدان پیدا ہوتے ہیں اور وہاں جو لوگ ڈاکٹر اور انجینئر بنتے ہیں تو اپنی زبان تعلیم میںحاصل کر کے اوپر آتے ہیں۔اردو قومی سطح پر ہمارے ہاں سب صوبوں میں رابطے کی زبان ہے ۔اسی طرح انگریزی دنیا کے ملکوں کے درمیان رابطے کی زبان ہے ۔سو انگریز ی کو تو ہم نے نہیں چھوڑنا ۔ مگر اردو کو اس کا حق دلانا ہے ۔پرسوں ایک بڑے انگریزی ہوٹل میں واقعہ ہوا ۔جس کو ٹی وی پر کوریج دی گئی ۔ اس میں ایک امیدوار انٹرویو دے رہاتھا۔ مگر وہ ٹھیک طریقے سے انگریزی نہیں بول رہا تھا۔انٹرویو لینے والی دو خواتین نے اس کا خوب مذاق اڑایا۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ان خواتین کو بہت برا بھلاکہاگیا۔امیدوار کے ساتھ ہمدردی کااظہار کیاگیا۔پاکستان قومی زبان تحریک کے محمد سلیم اس سلسلے میں ابھی تک کوشش کررہے ہیں۔ ہم اگر انگریزی بولیںاور انگریزی کی ٹانگیں توڑیں تو اس پرشرمانے کی ضرورت نہیںہے ۔کیونکہ یہاںانگریز کہاںہیں جو ان کے ساتھ بول کر ہم انگریز ی سیکھ لیں۔جیسے ہم مادری زبان کے ساتھ ایک اور زبان بھی بولتے ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی بات سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے کہ میں انگریزی نہیں بولتا کیونکہ یہاں انگریزی بولنے والے نہیںہیں۔”جو انگریزی نہ جانتے ہوں ان کے سامنے انگریزی بولنا ان کی توہین ہے“۔