تبدیلی زندگی کا حصہ ہے جس سے غیریقینی کا خاتمہ ہوتا ہے لیکن اگر پاکستان کرکٹ ٹیم اور اِس سے متعلق فیصلوں کا تذکرہ اور شمار کیا جائے تو غیر یقینی کا تسلسل دکھائی دیتا ہے جس میں وقت اور حالیہ ناکامیوں نے مزید اضافہ کردیا ہے۔ مہمان ٹیم جنوبی افریقہ کے ساتھ پہلا ٹیسٹ میچ آج (چھبیس سے تیس جنوری) کراچی میں شروع ہو رہا ہے۔ جنوبی افریقی ٹیم تیرہ سال کے طویل انتظار کے بعد پاکستان میں موجود ہے لیکن کرکٹ سے متعلق فیصلہ سازوں کی توجہات مرکوز نہیں۔ کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی کرکٹ کمیٹی کا جب نئے چیئرمین اور عمران خان کے ہم عصر وکٹ کیپر اور بلے باز سلیم یوسف کی سربراہی میں اجلاس ہوا تو مصباح الحق اور وقار یونس کو ان کی ذمہ داریوں سے ہٹایا نہیں گیا۔ ویسے بھی جنوبی افریقی ٹیم کے پاکستان آنے سے صرف تین دن پہلے ہیڈ کوچ اور باؤلنگ کوچ کو ان کے منصب سے ہٹانا بہت معیوب لگتا ہے۔ ٹائیگر کے نام سے مشہور سلیم یوسف یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ کورونا وائرس نے ٹیم پر منفی اثرات مرتب کئے اور اسی وجہ سے دورہئ نیوزی لینڈ میں قومی ٹیم کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی۔ قومی ٹیم کی کارکردگی کسی بھی طور پر کین ولیمسن کی قیادت میں کھیلنے والی میزبان ٹیم کے قریب نہیں۔ وہی ولیمسن جنہوں نے دو میچوں کی سیریز میں قریب چار سو رنز بنا کر آئی سی سی کے ٹیسٹ بلے بازوں کی فہرست میں پہلی پوزیشن پر قبضہ جمالیا ہے۔ اگر کسی کھلاڑی کی جانب سے کچھ مزاحمت کی گئی تو وہ فواد عالم تھے جنہوں نے اپنے مستقبل کے حوالے سے ہونے والی چہ مگوئیوں کا جواب اپنی کارکردگی سے دیا۔ پینتیس سالہ فواد عالم نے بین الاقوامی کرکٹ میں اس صدی کی بہترین سنچریوں میں سے ایک سنچری بنائی۔ ان کی اس کوشش کی بدولت ماؤنٹ مونگانی میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں قومی ٹیم کو صرف ایک سو ایک رنز سے ہی شکست ہوئی لیکن کرائسٹ چرچ میں کھیلے جانے والے میچ میں ایک اننگ اور ایک سو چھتہر رنز سے ہونے والی شکست نے ٹیم کو توڑ کر رکھ دیا۔ جنوبی افریقہ کے خلاف دو ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئنٹی میچوں کیلئے برقرار رکھے جانے والے مصباح کا کہنا تھا کہ ’مجھے احتساب سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن آپس میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں اعتماد‘ تسلسل اور وضاحت کی ضرورت ہے۔ بہتری آنے میں وقت لگتا ہے اور ہمیں اس پر ضرورت سے زیادہ ردِعمل نہیں دینا چاہئے۔ ہمارے پاس نوجوان اور غیر تجربہ کار کھلاڑی ہیں اس وجہ سے نتیجہ حاصل کرنے میں وقت لگ رہا ہے۔ ان کی نرم مزاجی کو دیکھتے ہوئے انہیں ہیڈ کوچ کے کردار کے لئے بہت ہی نرم دل سمجھا جاتا ہے خاص طور پر جب‘ ان کے پاس چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی تھا۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہونے تھے اور جس پر ہمیشہ ایک سوالیہ نشان موجود رہا۔ اگر ہیڈ کوچ کے طور پر مصباح کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو اس میں ہوم گراؤنڈ میں صرف دو فتوحات (پہلی سری لنکا کے خلاف اور دوسری بنگلادیش کے خلاف) نظر آئیں گی۔ مصباح کی نگرانی میں کھیلے گئے دس ٹیسٹ میچوں میں سے تقریباً نصف میں قومی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک روزہ میچوں میں وہ ٹیم کیلئے بہتر ثابت ہوئے اور ٹیم نے پانچ میں سے چار میچوں میں فتح حاصل کیں۔ رواں سال اکتوبر اور نومبر کے مہینے میں شیڈول بھارت میں منعقد ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے حوالے سے مصباح کی سربراہی میں قومی ٹیم کی تیاریاں بھی ملی جلی ہی ہیں۔ اس مختصر فارمیٹ میں ٹیم کو سات مرتبہ فتح اور آٹھ مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جیت اپنا ایک اثر رکھتی ہے خاص طور سے پاکستان میں جہاں مداحوں کو کھلاڑیوں سے بہت امیدیں ہوتی ہیں اور اگر وہ امیدیں پوری نہ ہوں تو پھر مداح اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں شکست کے بعد قومی ٹیم میں سنجیدہ اصلاحات کی ضرورت تھی۔ نئے چیف سلیکٹر وسیم نے معاملات کو اُمید کے مطابق آگے بڑھایا تاہم سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق کی طرح اور بھی کچھ افراد کو وسیم کے انتخاب پر تحفظات ہیں۔ ممکن ہے کہ انضمام کو اس لئے بھی تحفظات ہوں کہ ان کے بھتیجے امام الحق کو منتخب نہیں کیا گیا۔ امام الحق بھی بابر اعظم کی طرح دورہ نیوزی لینڈ کے دوران چوٹ لگنے کے باعث سیریز نہیں کھیل سکے تھے اور انہیں وطن واپس بھیج دیا گیا تھا۔ نئے چیف سلیکٹر کی جانب سے ہونے والی کاٹ چھانٹ ٹیم کے لئے کیسی رہے گی اس بارے میں بات کرنا ابھی قبل از وقت ہے لیکن جس امر کی تعریف کی جانی چاہئے وہ یہ ہے کہ فیصلہ سازوں کی سطحی و عمومی ذہنیت میں اب تبدیلی آرہی ہے۔ کوئی بھی اس فرق کو محسوس کرسکتا ہے کہ اب ڈومیسٹک مقابلوں کو بھی اہمیت دی جارہی ہے اور ان میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کو ان کی محنت کا صلہ بھی مل رہا ہے۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جو ماضی میں کرکٹ سے متعلق ترجیحات کا حصہ نہیں تھی اور اسی وجہ سے ٹیم کے چناؤ پر اعتراضات ہوتے۔ کہیں ’اقربا پروری‘ تو کہیں رشوت و سفارش کا حوالہ دیا جاتا جس سے کھیل اور کھلاڑیوں دونوں کی ساکھ مجروح ہوتی۔ ٹیم گرین کے فیصلہ سازوں نے اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں اُور غلطیاں اب نہیں دہرائی جائیں گی‘ یہ بات بہت جلد عملاً ثابت ہو جائے گی۔