مشکوک محبتیں 

 بس اب تو دو ایک کام باقی ہیں۔ اس کے بعد تو لگتا ہے کہ دنیا جلد ہی اپنے تکمیل کے مرحلے تک پہنچ جائے گی۔ کیا ہے جو ناممکن ہے۔ سب کچھ تو ممکن ہو چلا ہے۔بس ایک کائنات کہئے جو ایک چھوٹے سے موبائل میں سمٹ آئی ہے۔موبائل نے پوری دنیا کو فتح کر لیاہے۔پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔گھیر گھار کر سب کچھ اپنے اس چھوٹے سے ظرف میں یوں سٹور کردیا ہے جیسے ذرے کا دل چیریں تو خورشید کا لہو نکل آئے۔وہ لوگ جو گذر گئے ان کو بھی جلد ہی موبائل سکرین پر دیکھا جا سکے گا۔ جو کچھ سوچنا ہے وہ خود بخود موبائل میں ریکارڈ ہو نا شروع ہوگا۔لکھ لکھ کر سوچنے کی ضرورت نہیں سوچ سوچ کر آپ سے آپ لکھا جائے گا۔جانے زمانے کے ترکش میں اور کون کون سے تیر ہیں جو ابھی چلنے ہیں اور ٹھاک سے نشانے پر جا کر لگنے ہیں۔آنکھوں کے لینز میں کیمرے فٹ ہونے کا دور آ گیا ہے۔قاتل کی تصویر مرنے والے کی آنکھوں میں ریکار ڈ ہو جایا کرے گی۔. بلکہ ماردیئے جانے والے کے قتل کا سارا سین آنکھوں کے راستے دل میں اتر کر دماغ تک پہنچے گا اور جھٹ سے دور کہیں ہیڈ آفس میں پڑے سسٹم میں محفوظ ہوجائے گا۔ دنیا کا اختتام تو معلوم نہیں مگر اندازہ ہے کہ سب کچھ طے ہو رہاہے۔پھر یہی آدمی خود طے کر رہاہے۔کل کووہ دن دور نہیں جب سوتے وقت کانوں کے ساتھ ہینڈ فری لگ جائے تو رات کے دیکھے خواب بھی تاروں کے ذریعے انڈیل کر موبائل پرڈال دیئے جائیں گے۔ لیکن یہ تو میرا اپنا ذاتی خیا ل ہے۔ہو سکتا ہے معاملہ اس سے جدا ہواور بہتر ہو برق رفتار ہو۔ خوابوں کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں بلیو ٹوتھ کے ذریعے ہی کام لیا جائے۔ شاید نیلا دانت خود اپنے جبڑے میں لگا دیا جائے اور اس ذریعے سے سب کچھ ریکارڈنگ سے جھومتا جھامتا آ کر موبائل میں محفوظ ہو۔ کچھ لوگوں کواس وقت یہ کام مشکل لگتے ہوں گے۔ یا پھر وہ ان فضول باتوں کو ناممکن بھی کہیں۔ مگر سوچیں کہ پرانی داستانوں میں قالین کے اڑنے کے تذکرے آپ نے نہیں پڑھے۔ کیاآج وہی قالین بوئنگ جہازوں میں بیٹھی ہوئی سواریوں کے پاؤں تلے نہیں بچھے ہوتے۔ جن پر یہ پان سو مسافر پاؤں جمائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ موبائل پر آمنے سامنے سات سمندر پار سے باتیں ہو سکتی ہے۔ ایک دوسرے کودیکھ کر ہنسی مذاق ہو سکتا ہے تو بہت کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔نت نئے علاج نکل آئے ہیں۔بیماریاں اگر ہیں تو ان کے کارگر علاج بھی ہیں۔ایک جگر کے ٹکرے چار ہوتے ہیں۔ چار بندوں کولگائے جاتے ہیں۔ آنکھیں لگ سکتی ہیں۔گردے ایک دوسرے کو دیئے جاسکتے ہیں۔معلوم نہیں اورکیا کیاہوگا۔ آنکھوں کے پردوں کے آپریشن ہیں۔ جو سو سال پہلے نہ تھے۔ پہلے اربوں لوگوں کی آنکھیں جو ایک بار خراب ہوئیں تو تا دمِ مرگ پھر ان کو صحت نہ ملی۔وہ آنکھوں سے اندھے ہوئے مگر پانچ منٹ کے آپریشن کے بعد ان کی نظر کا بحال ہونا ان کی قسمت میں نہ تھا۔ وہ جو ہماری قسمت میں ہے گذرجانے والوں کی قسمت میں نہ تھا۔یہ سائنس جو اس وقت موجود ہے اور ہمارے نصیب سے ہے وہ آنے والے زمانوں کے لوگوں کے لئے مذاق ہوگا۔ آنے والی نسلیں ہم پر ہنسیں گی۔ ہماری کم علمی پر بہتان باندھیں گی۔ ہوائی جہاز نہ تھا کار نہ تھی کوچیں نہ تھیں تو کیا تھا۔خط کا لفافہ گھوڑے پر آتاتھا۔ اس سے پہلے اونٹ استعمال ہوتے تھے۔پھر ہوتے ہوتے ریل کار کے علاوہ جہاز استعمال ہوئے۔ اب تو یہاں وٹس ایپ کرو اور دور پار اس کی فوٹو سٹیٹ کاپی نکال لو۔لندن کی بندر گاہ سے روانہ ہونے والا پانی کا جہاز بائیس دنوں میں کراچی کے ساحل پرپہنچتا تھا۔ حج کر نے والے ہفتوں میں بحری جہاز کے ذریعے عرب کی سرزمین پر اترتے تھے۔اب تو کاروباری لوگ صبح جہاز میں نکلتے ہیں اوردد بئی میں کام نپٹا کر دکان چلا کر اسی دن گھر کو رات تک لوٹ کر آتے ہیں۔پھر اپنے بستر پر سو جاتے ہیں۔ہوائی جہاز ایئر بس سینکڑوں مسافروں کو پل جھل میں یہاں سے وہاں اڑا کر لے جاتا ہے۔سپر سانک جہاز ہوا کی رفتار سے دوسرے شہر پہنچ جاتا ہے۔نئے طیارے آئیں گے نئے پانی کے جہاز ہوں نئے موبائل آئیں گے یہ نسل مٹ جائے گی اور نئی نسل نئے زمانے نئے صبح و شام دیکھے گی۔آنے والے زمانے میں بہت کچھ ہوگا۔کسی چیز کی کمی نہ ہوگی۔جو سوچو وہی ہو گا او رہو کررہے گا۔ کیونکہ پچھلے زمانے کے انسانوں نے جو خواب دیکھے وہ ویسے کے ویسے پورے ہوئے۔پرندے کو دیکھ کردل میں امنگ جاگی کہ کاش میں بھی اسی طرح اُڑوں۔ انسان اُڑاجہاز میں اور اب کچھ دنوں قبل اکیلا بھی اڑ تا ہوا دکھائی دیا۔جہاز سے اوپر۔ جس پر اس کی تلاش کر کے اس کو سزا دینے کی ٹھان لی گئی۔ سب ہو گا مگر ایک چیز نہ ہوگی۔وہ محبت ہے خلوص یاری دوستی اخلاص مروت۔اس کا چلن ترک کر دیاجائے گا۔جو محبتیں آج مشکو ک ہوئی جاتی ہیں وہ اپنے مشکوک ہونے میں یقین حاصل کرلیں گی۔