پاکستانی بیٹسمینوں کے بارے میں یہ شکایت پرانی ہے کہ وہ ملک سے باہر انڈرپریشر نہیں کھیل پاتے۔ کبھی اسے تکنیک کا معاملہ سمجھا جاتا ہے تو کبھی اسے اعتماد کی کمی کہا جاتا ہے۔آئیڈیل بات تو یہی ہے کہ جب کوئی کرکٹر انٹرنیشنل کرکٹ میں آئے تو اس نے پہلے ہی سے کافی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رکھی ہو۔ ذہنی طور پر پختگی وقت کے ساتھ آتی ہے۔ کھلاڑیوں کو اعتماد دینے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے بھارتی ٹیم کی مثال ہے جو چھتیس پر آو¿ٹ ہوئی لیکن اس کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور وہ سیریز کی فاتح بنی۔ ٹیم گرین کے بہت سے کرکٹرز ایسے ہیں جو ٹی ٹوئنٹی یا ون ڈے سے ٹیسٹ کرکٹ میں آئے ہیں۔انہیں سیٹ ہونے میں وقت درکار ہے۔ یہ تربیت اہلکاروں (کوچنگ سٹاف) کا فرض ہے کہ وہ نئے کرکٹرز کو یقین دلائیں کہ آپ ایک سیریز کے لئے سلیکٹ نہیں ہوئے کیونکہ نئے کھلاڑی یہی سوچتے ہیں کہ اگر ان سے پرفارمنس نہیں ہوئی تو وہ ٹیم سے باہر ہو جائیں گے۔ اگر انہیں اعتماد دے دیا جائے تو اس سے انہیں اپنی صلاحیتیں کھل کر دکھانے کا موقع ملے گا اور وہ ذہنی طور پر دباو¿ کا شکار نہیں ہوں گے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کھلاڑیوں کی ذہنی صلاحیت بڑھانے کے لئے وقتاً فوقتاً ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کرتا رہا ہے لیکن یہ کام مختصر مدت کے لئے نہیں بلکہ مستقل بنیاد پر ہونا چاہئے۔ صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ دیگر کھیلوں میں بھی پاکستان کو نفسیات کے ماہرین ٹیموں کے ساتھ نظر آنے چاہئیں۔ اگر آپ بھارت یا دیگر ٹیموں پر نظر ڈالیں تو وہ انہی کرکٹرز کو ٹارگٹ کرتی ہیں جن میں صرف ٹیلنٹ ہی نہ ہو بلکہ ان کی شخصیت بھی ایسی ہو جسے نکھارا جاسکے اُور بہتر بنایا جاسکے۔ ماضی میں ٹیم گرین کا حصہ کئی ایسے کھلاڑی رہے ہیں جنہیں دباو¿ میں کھیلنے کا مزا آتا تھا۔ حنیف‘ آصف اقبال‘ جاوید میانداد‘ انضمام الحق اور حالیہ برسوں میں مصباح الحق اور یونس خان نے یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی لیکن موجودہ ٹیم گرین میں اعتماد کے فقدان اُور دباو¿ میں خراب کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ کرکٹ کے کھیل میں ذہنی طور پر مضبوطی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔یہ صرف کھیلوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا اہم کردار انسان کی عام زندگی میں بھی ہوتا ہے۔ ذہنی و اعصابی مضبوطی (مینٹل ٹفنس) کا مطلب یہ ہے کہ کھلاڑی کا ذہن نظم وضبط کے مطابق ہو جسے وہ آسان اور مشکل ہر طرح کی صورتحال میں بروئے کار لاسکے۔ اگر بھارتی کرکٹ ٹیم کی حالیہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو نوجوان کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں جو نام سامنے آتا ہے وہ سابق ٹیسٹ کرکٹر راہول دراوڈ کا ہے۔ پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ بھارتی ٹیم کی کوچنگ پر نظر رکھی جائے اُور کھلاڑیوں کو عالمی مقابلوں میں زیادہ سے زیادہ کھیلنے کے مواقع دیئے جائیں تاکہ اُن کا اعتماد قائم اُور بحال ہو۔ اِس سلسلے میں ’آئی پی ایل‘ کی شکل میں پلیٹ فارم موجود ہے۔ نوجوان کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مضبوط کرنے کے لئے راہول دراوڈ کی شکل میں انتہائی تجربہ کار مینٹور بھی موجود ہیں جنہیں بخوبی معلوم ہے کہ جدید کرکٹ کے تقاضے کیا ہیں۔