سنا ہے کہ پشاور میں صفائیاں ہو رہی ہیں ۔کس نے کہا ہے ۔ کہاں ہو رہی ہیں ۔ صفائیاں ہو نہیں رہیں ۔ صفائیاں پیش کی جا رہی ہیں۔ صفائی ہونے کی افواہ کسی دشمن نے اڑائی ہوگی۔ ذرا آکر دیکھیں لگ پتا جائے گا کہ صفائی ہے بھی سہی کہ نہیں۔ وہ گندگی اور کچرا ملے ہے کہ آنکھوں میں دکھن شروع ہو جائے گی۔ٹی وی پر ایک آدھ رپورٹ جو صفائی کے عملے کے خلاف چل گئی تو یہ صفائی کرنے کو اٹھ کھڑے ہوئے۔پھرصفائیاں دینے کو بیٹھ گئے۔مگر ” دیکھ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو ہوا ۔تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں“۔میلوں لمبی نہر ہے اور کوڑھے کے ایک بہت بڑے ڈھیر کا منظر پیش کر رہی ہے ۔سوکھی کھڑنک نہر ۔ جس میں بعض دکاندار اپنی دکانوں کے برتن بھی دھوتے تھے۔ مگر اب تو اتناپانی بھی اب اس میں نہیں رہا۔ اس میں اب بھر بھرکے ہتھ گاڑی آتی ہے اور انڈیل دی جاتی ہے ۔ایک نظر دوڑائیں آئیں اور ملاحظہ فرمائیں ۔ ورسک کو روڈ کو بیچ میں سے آر پار کاٹتی ہوئی نہر خشک ہو چکی ہے ۔پانی کہیں روک دیا گیا ہے۔دس دنوں سے یہ حال ہے ۔اگر پانی کو روک کر کہیں اور دھکا دیا جاسکتا ہے تو پھر کیوں نہ اس پر روڈ کے برابر دورویہ سڑک بنا دی جائے تاکہ ٹریفک کی روانی میں جو خلل واقع ہے وہ دور ہو ۔اگر نہیں تو ریل کی دو پٹریوں کے برابر ساتھ جاتی سڑک کو چوڑاکر دیں۔ تاکہ ویسے نہ سہی ایسے ٹریفک کے جمے ہوئے بلاک خون کو راہ ملے ۔یہاں سے گذر ہوتا ہے تو مجبور لوگوں کا ۔کیونکہ انھوں نے گھر سے باہر کام کاج کے لئے نکلنا ہے اور پھر گھرواپس آنا ہے ۔دو وقت کی روٹی ہو نہ ہو مگر دو وقت یہ گندگی کی بُو ان کامقدر ہے۔ یہ بھی کم از کم کی حد ہے۔ اگروہ شخص دن میں کافی مرتبہ اس نہر کے ساتھ جاتی ہوئی راہ پر سے گذرتا ہے تو اس کے نصیب بد بُو کے جھونکے ریلے اور لہریں لکھی گئی ہیں ۔جن کو اس نے برداشت کرنا ہے۔وگرنہ اس کو قبول نہیں تو کہیں اندرونِ شہر جا کر بس جائے وہاں گھر لے اور رہ جائے ۔ یہاں کی آس پاس کی آبادی میں اگر اس کانشیمن ہے تو کیا نشیمن ہے آشیانے تو باغوں میں ہوتے ہیں۔ درختوں کی ہری بھری شاخوں میں پرندو ںکے ڈیرے ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے بسیرے سانجھ سویرے رین بسیرے سرِ شام یہیں واقع ہیں۔بلکہ اس نہر میں تو بچے پہلے گندے پانی میں نہاتے تھے اب نیچے اتر کر کھیلتے ہیں۔ کتوں کے لئے افزائش اور نمائش کے لئے یہ جگہ بہترین ہے۔کیونکہ ہر روز کے پھینکے جانے والے گند میں روز اضافہ ہو رہاہے ۔قریب قریب تو کوئی سبیل نظر آتی کہ اس نہر کو بڑی مشینیں اور ہیوی ویٹ ٹرک منگوا کر کھود کھود کر صاف کیا جائے۔ مگر صفائی بھی کون سی ۔جب صفائی ہوتی ہے تو نہر سے گند نکال کر سڑک کی پچھلی سمت کی بڑی نالیوں میں پھینک دیتے ہیں ۔جہاں اسی نہر کا پانی گذرتا ہے اور کھیتوں کو سیراب کرتا ہے ۔پہلے تو امکان میں نہیں کہ یہ تحریر اہلِ ہوش پڑھیں اور اپنے صفائی کے دفتر سے اس نہر کو گند سے خالی کرنے کا پروانہ جاری کریں۔ اگر بالفرض ملاحظہ ہو جائے تو وہ اتنے فارغ نہیں کہ اگر توجہ دیں بھی تو اس نہر کے خشک ہو کرکوڑے کے ڈھیر میں تبدیل ہوجانے پر متوجہ ہوں۔اگر نہر میں پانی کی روانی تھی تو فراوانی بھی تھی ۔جو گند کسی نے ڈال دیا تو یہ نہر بیچاری کچھ نہ کہتی اور چپکے سے اس گند کو لے کر آگے بڑھ جاتی۔ دنیا جہاں کا گند اس میں ڈالا جاتا ہے۔جس کو اس نہر کا پانی اپنے ہمراہ لے جاکر کہیں دور پھینک دیتا ہے۔اگر جلد ہی اس کی صفائی کا بندوبست نہ ہوا تو نہر میں کوڑا زیادہ ہوتا جائے گا۔ پھر نہر گند سے یوں ڈھک جائے گی کہ اس پر بچوں کاکرکٹ کھیلنا آسان ہو جائے گا۔ جیسے جم جانے والی جھیل میںآئس ہاکی کھیلتے ہیں اور گلگت کی جھیل میں بھاگم دوڑ ی ہو تی ہے ۔نہر میں تو پورے پورے اینٹوں کے ستون کسی گرے ہوئے مکان کے ملبے سے اٹھا کر یہاں گرا دیئے گئے ہیں۔پانی اگر آجائے تو یہ ستون پانی کی ہموار سطح کے نیچے چھپ جائیں گے۔ کیونکہ پانی کو تو جس برتن میں ڈالو وہ اپنی سطح کو ہموار رکھتا ہے ۔بہتر یہ ہے کہ اسمبلی سے ایک نئی قانونی شق نکالی جائے ۔جو گند گراتا ہوا نظر آئے اٹھاکراندر کردیں۔ دو چار بندے جیل کی ہوا کھائیں گے تو وہ ہوش کے ناخن لیں گے۔ مگر ہم لوگ نصیحت وغیرہ جیسی پر تکلف اشیاءکے قائل نہیں ۔ہمیں ہراچھی بات بری لگتی ہے اور بری بات اچھی ۔سمجھتے ہیں کہ جو ہمیں نصیحت کررہاہے اس میں ہمارا نہیںبلکہ خوداس کا کوئی فائدہ پوشیدہ ہے ۔