پہلی دفعہ دیکھنے کی حیرت اور خوشی۔۔۔۔

جب بھی نئے سال کی پہلی گھڑی شروع ہوتی ہے دنیا کے بیشتر بڑے شہروں میںعجب جوش ولولہ اورجشن کا سا سماں ہوتا ہے کتنے ہی دارالخلافوں میں تو کئی کئی دنوں سے نئے سال کی شروعات کیلئے تقریبات کا اہتمام اور تیاری بہت پہلے سے شروع ہو جاتی ہے نیویارک کی ان ہی مشہور ممالک اور دارالخلافوں کی طرح کی ریاست ہے جہاں کا ٹائم سکوائر نئے سال کے آغاز کے جشن کیلئے سرفہرست ہے ٹائم سکوائر میں دنوں کے حساب سے ہر وقت ہی جشن و سرور کا سا عالم ہوتا ہے لیکن نیو ائیر نائٹ کیلئے اسکو شہرت دوام حاصل ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک سے بھی شوقین مزاج خواتین و حضرات کئی روز پہلے سے یہاں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور30دسمبر کی رات سے ہی اس روڈ کو اسٹیج کے نزدیک ترین جگہ حاصل کرنے کیلئے قبضہ کرنے کیلئے گھیر لیتے ہیں 31دسمبر کی صبح سے توتل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی چونکہ دسمبر کے یہ دن سردی اور برفباری کیلئے بھی خاصی شہرت رکھتے ہیں تو شوقین لوگ اپنے ساتھ‘ کمبل‘مفلر ‘ کھانا پینا‘ چھتریاں اور تمام وہ ضروری سامان بھی ساتھ رکھتے ہیں جس کی ان کو موسم سے نبردآزما ہونے کی ضرورت پڑ سکتی ہے میں ٹائم سکوائر پر کھڑی ہوں اگرچہ یہ جولائی کا مہینہ ہے لیکن یہاں کی گہما گہمی میں جشن کاسا لرزا ہے خوبصورت لوگ یہاں جمع ہیں ٹائم سکوائر پر بڑی بڑی سکرینز لگی ہیں جہاں مشہور زمانہ ماڈلز قیمتی ترین اشیاءکی نمائش کرنے میں مشغول ہیں اونچی عمارتیں اور خوبصورت سٹور یہاں کی خاص قابل توجہ باتوں میں شامل ہیں جب1896ءمیں ٹائم سکوائر کا یہ علاقہ آباد ہونا شروع ہوا اس وقت نہ کوئی سکوائر تھا نہ کوئی ٹائم نام کی عمارت تھی بلکہ پورے یورپ اور نارتھ امریکہ میں نیو یارک غیر صحت مند یا گندی جگہ کہلاتی تھی بلکہ اسی صدی کے شروع کے سالوں میں وقفے وقفے سے اس کے گند کی وجہ سے کئی بار ہیضہ کی وباءپھوٹتی رہی لیکن اسکے باوجود نیو یارک میں ترقی کی رفتار تیز تھی1868ءمیں نیو یارک ریلوے شروع ہوئی1878ءمیں نیو یارک میں پہلی دفعہ ٹیلی فون متعارف ہوا1880ءمیں اس شہر میں بجلی آگئی تھی جب کہ دنیا کے بیشتر حصے تاریکیوں میں ڈوبے ہوتے تھے1869ءاور 70 میں میوزیم آف آرٹ اور میوزیم آف نیچرل ہسٹری کی بنیادیں رکھی گئیں جس سے اس شہر کی فنون لطیفہ سے گہری جڑیں وابستہ نظرآتی ہیں‘1851ءمیں نیو یارک ٹائمز کا اخبار جاری ہوا اس کے دفاتر نیو یارک کے کسی اور علاقے میں تھے لیکن براڈوے کے اس علاقے کو تیزی سے پھیلتے پھولتے دیکھ کر نیو یارک ٹائمز کے مالک اڈالف ایس آشز نے فیصلہ کیا کہ وہ اس جگہ ٹائم ٹاورز بلڈنگ بنائیں گے۔ اور یہ ایسی جگہ تھی جہاں دور دور سے عمارتیں نظر آتی ہیں۔ٹائم ٹاور نیویارک کی بلند ترین عمارت تھی1905ءمیں جہاں اخبار نیویارک ٹائمز کا دفتر شفٹ ہوا جو 42اور43 گلی میں تھا اور اس وقت کے میئر جارج بی میکالن نے ایک قرارداد کے ذریعے اس پورے علاقے کا نام سرکاری طورپر ٹائم سکوائر رکھ دیا بعد میں اخبار کے مالک نے ایک انٹرویو میں کہا کہ مجھے تو کوشش ہی نہیں کرنا پڑی اور نیویارک کا یہ مشہور علاقہ اسکے اخبار اور عمارت کے نام سے منسوب ہوگیا نیو یارک ٹائمز کے مالک نے ہی یہاں ایک دفعہ بڑا اجتماع رکھ کر تقریب کا اہتمام کیا تھا اور اس دن سے ٹائم سکوائر ہر قسم کے جشن اور تقریبات کا مرکزبنتا ہی چلا گیا جن میں نیوائرنائٹ سرفہرست ہے ہم کئی گھنٹے ٹائم سکوائر میں پھرتے رہے بلندوبالا عمارات اور خوبصورت خریدوفروخت کے مراکز اور کھانے پینے کیلئے تحاشا ہوٹل ریسٹورانٹ اور دوکانیں دیکھ کر حیران ہوتے رہے خصوصاً یہاں کی42ویں گلی جس سے لاکھوں لوگ گزرتے ہیںآتے ہیں جاتے ہیں خوش ہوتے ہیں مغرب کے لوگ ایک طرف سے تنہا لیکن زندہ دل لوگ ہیں سارا دن کام کاج کے بعد آدھی رات تک ان رونقوں میں خوش ہو کر گزار دیتے ہیں کھانا پینا باہر سے کرتے ہیں اور اپنے دوستوں اور پسندیدہ لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں ان کو ہماری طرح کسی سیاست‘ ووٹ‘ رشتہ دار‘ لین دین‘ سبزی‘ گوشت کے بکھیڑے اپنی گرفت میں نہیں لیتے وہ اپنے دن کو اپنی رات کو صرف اچھا گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں مستقبل کے خدشات پالنا ان کی ڈکشنری میں کہیں بھی موجود نہیں ہوتا میرا میزبان یہودیوں کی ہی ایک کمپنی میں کام کرتاتھا اور نیویارک کی ایک بلندعمارت کی طرف اشارہ کرکے اس نے مجھے اپنا دفتر بتایا تھا نیویارک کی معیشت میں یہودیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور یہاں کے کاروبار اور فنانس پران ہی کی گرفت ہے گورے چٹے امریکی پولیس آفیسر چاک وچوبند ٹائم سکوائر پر کھڑے تھے اور لوگ کسی بھی ڈر خوف سے بے پرواہ خوش و خرم گھوم پھر رہے تھے ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو اقوام متحدہ کی عمارت دیکھنے چلے گئے مجھے ذاتی طور پر یونائیٹڈ نیشن کے دفاتردیکھنے کا بڑا شوق تھا یہ عمارت بھی بہت بلند ہے ور عمارت سے متصل دنیا کے ہر ملک کا جھنڈا لگا ہوا ہے بہت بڑا گیٹ اور اس کے سامنے وسیع میدان میں سرسبزوحسین لان نظرآرہا ہے مجھے اس وقت معلوم نہ تھا کہ میں اندر جاکر اس عمارت کے کچھ حصے دیکھ سکتی ہوں اس لئے میں نے باہر سے ہی اس عمارت کو دیکھا اور اونچی عمارت کے ساتھ اپنے کیمرے سے تصویریں بنوانے کی کوشش کی کیونکہ عمارت کی اونچائی کسی عام کیمرے کی آنکھ میں قیدہونا مشکل ہی تھا لیکن تصویر اور عادت دونوں ہی خوب ہوگئے عمارت کے بالکل سامنے حبیب بنک کی عمارت تھی گو کہ میں اندر نہیں گئی لیکن دیکھ کر اچھا لگا ہمارے ملک کی پہچان ہمارا بینک یہاں موجود ہے اس بات کو کئی سال ہوگئے میں نہ جانے اب بھی بینک کی یہ عمارت یہاں ہوگئی یا نہیں نیو یارک کی صاف شفاف سڑکیں‘ نئے ماڈل کی گاڑیاں‘ ترقی یافتہ لوگ لوگ دیکھ کر حسرت ضرور پیدا ہوئی کہ میرے ملک کے شہر بھی ترقی کے لحاظ سے اتنے معتبر ہو جائیں کہ دنیا والے پاکستان کے شہروں میں بھی آکر ان کے گن گائیں دو دن نیویارک میں بھرپور گزارے اور بذریعہ جہاز واپس اسلام آباد کیلئے روانہ ہوئے جان ایف کینیڈی کا ہوائی اڈہ ان دنوں اتنا وسیع النظر اور اعلیٰ ظرف تھا کہ میرے میزبان مجھے جہاں کے اندر تک چھوڑنے آگئے تھے کوئی روک ٹوک نہیں کوئی پابندی نہیں تھی ابھی نائن الیون نہیں ہوا تھا ابھی افغانستان میں نیٹو افواج نے دہشت گردی کی وہ جنگ شروع نہیں کی تھی جو بعد کے سالوں میں دہشت اور خوف میں تبدیل ہوگئی تھی جان ایف کینیڈی ائرپورٹ بین الاقوامی پروازوں کیلئے مصروف ترین ائرپورٹ تھا ایک ایک منٹ کے حساب سے جہاز ائرپورٹ پر اتر رہے تھے اور روانہ بھی ہورہے تھے اگرچہ اس سیر کے بعد میں کئی دفعہ نیو یارک گئی ہوں چائنا ٹاو¿ن اور جیکسن ہائیٹ پر کتنے ہی گھنٹوں پھرتی رہی ہوں پارکوں اور پلوں کو بھی دیکھا ہے کتنی ہی دیر تک مشہور جگہوں پر بھی بیٹھ کر سیاحت کو انجوائے کیا ہے لیکن جو حیرت خوشی اور حسن مجھے پہلی دفعہ نیویارک دیکھ کر ہوئی تھی وہ آئندہ دنوں میں اس طرح کبھی بھی نہیں ملی میں نے دوبارہ ٹائم سکوائر پر نیوائرنائٹ کا جشن اور مشہور زمانہ گلوکاروں کا کنسرٹ بھی دیکھا ہے لیکن ٹائم اسکوائر کو دیکھنے کی پہلی دفعہ حیرت اور خوشی کا سا انوکھا انداز ان نیوائرنائٹ سے حاصل نہیں ہوا اوریہ سچ ہے کہ کسی بھی شہر کو اسکی عمارتوں اور مشہور جگہوں کو حیرت و استعجاب سے پہلی دفعہ دیکھنے کا عجب ہی لطف اور سرور ہوتا ہے اب نیویارک پہلے سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہے تیز رفتار اور خوبصورت ہے اگرچہ کوروناکی وباءنے 2020ءمیں اس ریاست کو بری طرح جکڑے رکھا یہاں ہزاروں اموات ہوئیں لیکن نیو یارکر کے حوصلے بلند ہیں میں بھی ان کی صحت اور سلامتی کیلئے دعا کرتی ہوں کہ ہمارے ملک کے خوبصورت محنت کش‘ صحافی‘اور کاروبار سے منسلک لاکھوں لوگ اپنے اور اہل وعیال کیلئے روزی روٹی کیلئے نیویارک میں رہائش پذیر ہیں۔