گہری بات۔۔۔۔

تنقید برائے تنقید جیسے معمولات میں وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ایک ایسی ’گہری بات‘ کہی ہے جس سے پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ اور مستقبل بارے رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ اُنہوں نے نواز لیگ کی نائب صدر مریم نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا نام لئے بغیر کہا کہ گیارہ جماعتی حزب اِختلاف کے اِتحاد ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی اَیم)‘ کی تباہی کے ذمہ دار دو سیاسی وارث ہیں جنہیں اُنہوں نے ’نومولود‘ کا لقب بھی دیا ہے اور یہ المیہ صرف مذکورہ دو قومی جماعتوں ہی کا نہیں بلکہ پاکستان کی سبھی قومی و علاقائی اور قوم پرست جماعتیں جمہوریت کا نام لیتی ہیں لیکن اُن کے ہاں کہیں نہ کہیں فیصلوں پر موروثیت کا غلبہ نظر آتا ہے۔ اِس بات کو سمجھنے کےلئے صرف قیادت ہی نہیں بلکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مخصوص نشستوں سے لیکر عام انتخابات میں پارٹی کی نامزدگیاں تقسیم کرنے تک ذات برادری اور نسلی لسانی تعلق کو اہمیت دی جاتی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ جس سیاست کی بنیاد اہلیت کی بجائے خاندانی وراثت پر قائم ہو‘ اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو آج ’پی ڈی ایم‘ کا ہے لیکن اِس انجام سے وہ جماعتیں بھی نہیں بچ سکیں گی جنہوں نے جمہوری قدروں کو جماعتی حلقوں میں رائج و توانا نہیں کیا۔ سردست قضیہ یہ ہے کہ ’پی ڈی ایم‘ اپنے بنیادی مقصد و مطالبے سے ایک قدم پیچھے ہٹ گئی ہے یعنی تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنا مقصد تھا لیکن بڑی جماعتیں اب اِس نکتے (حکمت عملی) پر اتقاق کرتی نظر نہیں آتیں۔ پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنماو¿ں کی جانب سے متضاد بیانات نے حزب اختلاف کے اتحاد میں موجود نااتقافیوں کو عیاں کر دیا ہے اور اتحاد کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب نواز لیگ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فصل الرحمان حکومت پر دباو¿ بڑھانے کےلئے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کی تاریخوں پر بات کرتے نظر آ رہے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ ان کی جماعت حکومت کو ہٹانے کےلئے آئینی‘ قانونی اور جمہوری طریقہ اپناتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تجویز پی ڈی ایم کی سامنے پیش کرے گی تاہم نواز لیگ کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال نے اس تجویز کو رد کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو کے پاس عدد (اگر نمبرز) پورے ہیں تو سامنے لائیں۔ سینیٹ میں نمبر گیم پوری ہونے کے باوجود چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تھی۔ اس لئے ان کی جماعت تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں۔پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی جانب سے مختلف حکمت عملیوں کے حوالے سے بیانات ’پی ڈی ایم‘ میں اَندرونی اِنتشار کا عکاس ہیں۔ نواز لیگ پیپلز پارٹی کی عدم اعتماد سے متعلق تجویز پر محتاط ردعمل دے رہی ہے جو درحقیقت اتحاد بچانے کی کوشش ہے۔ نواز لیگ سمجھتی ہے کہ اُس کا مقابلہ جن قوتوں سے ہے وہ صرف تحریک انصاف نہیں اور اگر تحریک عدم اعتماد لائی جاتی ہے اور یہ کوشش ناکام ہو جاتی ہے جیسا کہ صادق سنجرانی کے خلاف ’تحریک کا حشر‘ ہوا تھا تو یہ پی ڈی ایم کے لئے زیادہ بڑا دھچکا ہو گا اور اس ناکامی کے بعد پی ڈی ایم کو زندہ (متحد) رکھنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔بنیادی سوال یہ ہے کہ ’پی ڈی ایم‘ کا مستقبل کیا ہے؟ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ ’پی ڈی ایم‘ کی جانب سے حکمت ِعملی تبدیل کی گئی ہو۔ گذشتہ سال ستمبر میں جب ’پی ڈی ایم‘ قائم ہوئی تب حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا تھا کہ وہ جلد اسمبلیوں سے استعفے دیں گے جو کہ حکومت کی برطرفی اور نئے انتخابات کا سبب بنے گا، لیکن ایسا اب تک نہیں ہو پایا۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کی جانب سے سینیٹ اور ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا لیکن اب مریم نواز کی اپنے پارٹی رہنماو¿ں کے ساتھ ملاقات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی دونوں ہی جماعتیں انتخابات میں بھرپور شرکت کریں گی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی جانب سے میدان خالی نہ چھوڑنے اور سینیٹ و ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ درحقیقت دانشمندانہ اور جمہوری تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں اسمبلیوں میں رہ کر اور زیادہ سے زیادہ سیٹیں لے کر حکومت کو زیادہ ”ٹف ٹائم“ دے سکتی ہیں نہ کہ اسمبلیوں سے باہر رہ کر۔ ’پی ڈی ایم‘ اپنے پہلے راو¿نڈ میں تو حکومت کے لئے زیادہ مشکلات کھڑی نہ کر سکی لیکن اگر حزب اختلاف کی جماعتیں جاری تحریک کو کامیاب بنانا چاہتی ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ تحریک میں مہنگائی کی لہر اور بالخصوص بجلی و گیس اور پیٹرولیم قیمتوں میں اضافے کو بھی شامل کر یں۔ خاص نکتہ (دعوت فکر) یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا کوئی بھی احتجاج کامیاب نہیں ہوا جس میں مزدور کسان‘ عام آدمی (ہم عوام) اور طالب علم شریک نہ ہوئے ہوں جبکہ ’پی ڈی ایم‘ کے پلیٹ فارم سے‘ اب تک یہ تینوں فریق غیرحاضر ہیں!