پشاور یونیورسٹی کا مالی۔۔۔

پشاور یونیورسٹی جونہ صرف خیبر پختونخوا کی قدیم ترین جامعہ ہے بلکہ پچھلی چھ دہائیوں کے دوران صوبے میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہمیں جوترقی نظر آتی ہے وہ بھی اسی کے مرہون منت ہے آج جس بحران سے گزررہی ہے اس کے متعلق کچھ عرصہ پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ اس تاریخی درسگاہ کو یہ دن بھی دیکھنے پڑیں گے ۔اس کی تاریخ میں یہ شاید پہلا موقع ہے جب گزشتہ دنوں اس کے رجسٹرار کی جانب سے ایک تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں کہاگیا ہے کہ یونیورسٹی کے جملہ ملازمین اور پنشنرز کوجنوری کی مکمل ادائیگی کی بجائے صرف بنیادی تنخواہ ادا کی جائے گی جس میں بنیادی ایڈہاک ریلیف، کنوینس الا¶نس،ہاﺅس رینٹ اور میڈیکل الا¶نس کے علاوہ دیگر الاﺅنسزشامل نہیںہوں گے۔زیر بحث معاملے کے بارے میں پشاور یونیورسٹی کے رجسٹرار کا کہنا ہے کہ اس مہینے یونیورسٹی کو اپنی بنیادی ادائیگیوں کے لیے 285 ملین روپے درکار ہیں جس میں سے 172 ملین روپے تنخواہوں کی مد میں، 73 ملین پنشن کی مد میں اور 40 ملین دیگر ادائیگیوں جیسے یوٹیلیٹی بلز وغیرہ کےلئے درکار ہیں جب کہ اس وقت یونیورسٹی کے پاس 112 سے 115 ملین روپے موجود ہیں اور ان فنڈز سے یہ تمام ادائیگیاں ممکن نہیں ہیں اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس مرتبہ صرف بنیادی تنخواہ دی جائے گی اور اسی طرح پنشن بھی کم ہی ادا کی جا سکے گی۔ یونیورسٹی ذرائع کے مطابق ایک عرصے سے پشاور یونیورسٹی کی آمدن کم اور اخراجات بڑھ گئے ہیں جس کی بعض دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بنیادی سبب یونیورسٹی آف پشاور میں ماضی میں سیاسی بنیادوں پر تھوک کے حساب سے بھرتی کئے جانے والے ملازمین ہیں ۔جب کہ اس خسارے کی دوسری بڑی وجہ پچھلے پندرہ بیس سالوں کے دوران صوبے میں جامعات کی مشروم گروتھ ہے جس کے باعث جامعہ پشاور کا دائرہ عمل سکڑ چکاہے واضح رہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام میں آنے کے بعد جہاں ایک جانب صوبے میں نجی شعبے میں جامعات کھلنے کاسلسلہ شروع ہوا وہاں اے این پی اور پی ٹی آئی کے سابقہ دور حکومت میں کئی نئی جامعات کے قیام کے بھی پشاور یونیورسٹی جیسی تاریخی اور بڑی یونیورسٹی کی مالی پوزیشن پر اثرات مرتب ہوئے‘جب صوبے میں صرف دوجامعات تھیں تواس وقت پشاور یونیورسٹی کے ریگولر اور پرائیویٹ طالبعلم ملا کر کم وبیش ایک لاکھ تعداد ہوتی تھی جو امتحانی فیس اور دیگر ادائیگیاں کرتے تھے جس سے یونیورسٹی کوخاطر خواہ آمدن ہوتی تھی لیکن جب سے دیگر یونیورسٹیاں بنی ہیں تب سے جامعہ پشاور کے ریگولر اور پرائیویٹ طالبعلم ملاکرکل تعداد تقریباً 25 سے30 ہزار رہ گئی ہے جس کا براہ راست اثر یونیورسٹی کی آمدن پربھی پڑاہے جب کہ ایچ ای سی کے ایک حالیہ فیصلے کی روشنی میں بی اے بی ایس سی اور ایم اے ایم ایس سی کے دو سالہ پروگرامات کے خاتمے اور ان کی جگہ چار سالہ بی ایس کے پروگرام کے شروع کیے جانے کے بعد جامعہ پشاور سمیت صوبے کی دیگر جامعات کی آمدن میں بھی مزید کمی کا امکان ہے۔یہاں اس امر کی جانب اشارہ کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری جامعات جو پہلے سے مالی خسارہ جات کی شکار ہیں ان کی حکومتی گرانٹ میں بھی پہلے کی نسبت کافی کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ آج سے دس سال پہلے یونیورسٹی کی گرانٹ بجٹ کا 55 فیصد ہوتی تھی اور اب یہ کم ہو کر 47 سے 48 فیصد تک رہ گئی ہے پشاور یونیورسٹی کاایک اور المیہ اس کے بعض ذیلی اداروں کو یونیورسٹی کا الگ سے ملنے والا سٹیٹس ہے جن کی نمایاں مثال زرعی یونیورسٹی پشاور‘انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور، اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور اور خیبرمیڈیکل یونیورسٹی پشاورکابطور الگ جامعات قیام ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت پشاور یونیورسٹی میں اساتذہ کی تعداد 700 ،ایڈمن سٹاف 51،کلاس تھری ملازمین 600اور کلاس فور ملازمین 1000 ہیںجبکہ طلباءوطالبات کی تعداد 17000 تک ہے۔ واضح رہے کہ جامعات اپنی آمدن کے علاوہ وفاقی حکومت کی جانب سے ملنے والی گرانٹ پر انحصار کرتی ہےں اس لئے ان کی گرانٹ میں کمی سے جامعات کو پشاور یونیورسٹی جیسی سنگین صورتحال کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے جب کہ کچھ عرصہ پہلے اسی طرح کی صورتحال سے ایگریکلچر یونیورسٹی پشاور بھی گزرچکی ہے اور دیگر سرکاری جامعات کی حالت بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ۔