پہلی کے بعد دوسری آئی ۔اب سنا ہے کہ تیسری آ رہی ہے ۔کسی کا دل مانتا ہے تو کسی کا دماغ نہیں مانتا۔ ایک گو مگو کی کیفیت ہے۔کووڈ انیس کے بعد بیس کے ماڈل کادور چل رہاہے۔ پھر کہہ رہیں ہیں کہ آنے والے رمضان میں کووڈ اکیس کی قاتل ہوا بھی چلے گی ۔ایس او پیز کیا ہوتے ہیں ۔ اس کی تو رجھ کے دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ جس سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دو اندر اندر ناراض ہوتا ہے ۔حالانکہ کورونا کے بارے میں بہت کم لوگ ہوں گے جن کومعلومات نہ ہوں گی۔ مگر اس کے باوجود لاپروائی کا ایک دور ہے جس سے یہ لوگ گذر رہے ہیں۔ اب تو نہ مکمل لاک ڈا¶ن ہے اور نہ تو سمارٹ لاک ڈا¶ن کی اطلاع ہے ۔پھر تو نہ سپاٹ لاک ڈا¶ن ہے۔ نہ وہ دکانوں کے بند کرنے کے اوقات کا رونا ہے ۔شادی ہالو ںمیں بھی وہ پابندیاں دیکھنے میں نہیں آتیں۔ بس چیکنگ کا ڈر ہے جس کی وجہ سے بڑی دکانوں میں خیال کیا جاتا ہے ۔وگرنہ کسی کو اب کورونا کی پروا نہیں رہی ۔مرتے ہیں مریں۔ کہتے ہیں ہمارا کیا ہے۔بس یہی سوچ ہے کہ جس کے نام کورونا کی پرچی نکل آئی سونکل آئی۔جو قسمت میں ہوادیکھا جائے گا۔ ایک ملغوبہ سا پک رہا ہے ایک چوں چوں مربہ ہے اور ہم ہیں ۔جنازوں میں جانے سے کتراتے ہیں۔نہایت قریبی عزیز ہو اقربا میں سے ہو بہانے بنا کرپتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔کہہ دیتے ہیں ہم آ¶ٹ آف سٹی ہیں ۔برابھی نہیں کرتے۔ کیونکہ احتیاط لازم ہے۔ان دنوں اگر کوئی کسی کے جنازے میں پہنچ نہ سکے تو اس پر برا منانے کی بات نہیں ۔ بلکہ دل و دماغ کو کھول دیں۔ کھلے دل سے اس کے شرکت نہ کرنے پر راضی ہوں۔جانے دیں۔ کیونکہ یہ وقت اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کا ہے ۔ کیونکہ ایک آدمی اگر جنازے میں آ گیا تو امکان میں ہے کہ وہ گھر جاتے ہوئے اپنے گھر والوں کے لئے وائرس کی یہ نحوست ساتھ لے کر جائے گا ۔شادیوں میں بھی لوگ نہیں جار ہے۔ مگر اس کے باوجود شادی بیاہ اوریا غم واندوہ میںآدمیوں کا رش بھی ہو تا ہے۔ جو آتے ہیں اگر کم تعداد میں ہیں تو مطلب یہ کہ سب آئے ہیں کوئی باقی نہیں نہ رہا۔ ہم پورے طور پر احتیاط کرنے سے عاجز ہیں۔ روٹی پانی کمانے کی خاطر باہر جائیں گے ۔ ہاتھ نہیں ملائیں گے مگر کورونالے کر آئیں گے۔ کیونکہ عام محفلوں میں آپ دیکھ لیں بہت کم لوگوں نے ماسک پہنا ہوگا۔ میں نے کہا اس کو کوروناہواکیونکہ وہ بھی کورونا پر اعتبار نہیں کرتاتھا تو میرے شاگرد شکیل دارمنگی جو یونیورسٹی میں جرنلزم میں ہیں۔ پوچھنے لگے سر جو کورونا کو نہیں مانتے انھیں کو یہ وائرس کیوں آن لیتا ہے۔ میں نے کہا کوروناکی آنکھیں نہیں ۔ کسی کو بھی دنیا کے کسی مقام پرکسی بھی وقت اپنے پنجوں میں جکڑ سکتا ہے ۔لیکن وہ جو پروا نہیں کرتے او رایس او پیز کے پرزے پرزے کر کے ہوامیں اچھال دیتے ہیں۔ ان کو کورونا کے جلد ہوجانے کی یہی وجہ ہے کہ ان کے منہ پر نہ تو ماسک ہوتاہے اور نہ ہی ہاتھ ملانے سے باز آتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ سازش ہے ۔ سماجی فاصلہ رکھنا تو ان کے ذہن کے دور کسی خانے میں بھی نہیں ۔اب تو ہم نے کورونا کے ساتھ ایک سال تو گذار لیا ہے۔اب تو ڈر یہ پیدا ہو چلا ہے کہ کہہ دیا جائے گا فون پر بات کرنے سے بھی کورونا پھیلتا ہے تو بس گھر کے اکلاپے میں اکیلے رہو ۔آدمی نہ مددگار نہ فون۔ بس دیواروں کو دیکھ کر جیتے رہو۔ کہہ دیں گے ٹی وی کی شعاعوں کے ذریعے بھی عالمی وبا دوسروں میں منتقل ہوئی جاتی ہے ۔پھر تو بس اکیلے کمرے میں تالیاں بجابجا کر کوے اڑائیں گے بلکہ موقع ملا تو کنکوے پھی اڑائیں گے۔ عام اجتماعات میں توکہیں کہیں ماسک پہنے ہوئے کو ئی نظر آ جائے تو آ جائے۔ وگرنہ تو ماسک پہننے سے ہماری جان جاتی ہے۔کسی ادارے کے اندر تو ماسک پہن کر جانے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ مین گیٹ کے باہر سیکورٹی گارڈکوسخت ہدایت ہے کہ ماسک کے بغیر کسی کو اندر نہیں چھوڑنا۔ مگر ایک بار ماسک پہن کر مرکزی دروازے سے اندر جا¶ تو بے شک دہلیز کو پار کرتے ہی ماسک اتار دو۔ اندر کوئی کسی کو نہیں پوچھتا کہ آپ نے ماسک کیوں نہیں پہنا۔ ماسک پہننا بس ایک رسم سی گئی ہے ۔ یوںلگتا ہے کہ لوگ غول کے غول اس وائرس کا شکارہونا چاہتے ہیں۔جنازوں میں شادیوں میں عوام ٹولیاں بناکر ایک جانب کھڑے گپیں ہانک رہے ہوںگے ۔ گھر وں کی چار دیواری میںخواتین جنازے پر آئی ہوں تو اندر ماحول کی تنگی زیادہ ہو جاتی ہے۔جنازہ شادی ہا ل کے اوپن ایئر میں نہیں ہوتا ۔ اس لئے سب خواتین قریب قریب بیٹھی ہوتی ہیں۔اندر افواہ گردش کرنے لگتی ہے کہ فلاں عور ت کو کورنا کی بیمار ی ہے۔ یہاں سے نکلنے کی کرو۔اس لئے جنازہ گھرکی دہلیزسے نکلتے ہی دھڑا دھڑ خواتین بھی اپنے گھرکی طرف نو دو گیارہ ہونے لگتی ہیں۔بلکہ لوگ تو آج کل میت کو بھی ہاتھ نہیں لگاتے ۔ پھر نہ تو تابوت کو اور پھر جنازے کو کندھا تک نہیں دیتے ۔ شک ہوتا ہے کہ یہ آدمی کہیں کورونا سے نہ مرا ہو ۔کیونکہ کورونا ہو تو لوگ چھپاتے بھی ہیں۔