مسئلہ یہ ہے کہ غربت کا باعث وہی نکلے جن سے توقع تھی کہ وہ اِس میں کمی لائیں گے۔ ایک مرتبہ پھر ثابت ہوا ہے کہ حکمراں اَشرافیہ (سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں) کے ذاتی مفادات کے گرد گھومتی تدابیر نہ صرف غربت بلکہ غیرپیداواری اخراجات بلکہ قومی قرضہ جات میں اضافے کا سبب ہے جس کے انسداد کے لئے احتساب کا ادارہ قائم ہوا اور پاکستان کی جانب سے بیرون ملک خفیہ اثاثہ جات کی کھوج اور ملکیت کے دستاویزی ثبوت فراہم کرنے کے لئے غیرملکی کمپنی سے معاہدہ کیا گیا لیکن کچھ حاصل ہونے کی بجائے پاکستان کو ادائیگیاں بطور جرمانہ کرنا پڑ گئیں جن کی تحقیقات کےلئے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جو مذکورہ بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں سے متعلق تفصیلات مرتب کرے گا جنہیں ’براڈ شیٹ سکینڈل‘ کہا جاتا ہے اور اِس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانیوں کی تحقیقات کی جائیں گی۔ حکومتی بیان کے مطابق یہ کمیشن نواز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز اور آصف علی زرداری کے سرے محل اور سوئس بینک اکاونٹس کے معاملے کی تحقیقات کرے گا۔ تحقیقاتی کمیشن عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) سے بالاتر نہیں اور یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کمیشن معاملات کی انکوائری کرے گا جن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں یعنی سپریم کورٹ سال 2018ءمیں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کے حوالے سے نیب کی درخواست مسترد کرچکا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان حدیبیہ پیپر ملز مقدمے کو ’کرپشن کے مقدموں کی ماں‘ قرار دیتے ہیں۔ اِسی طرح سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے ’این آر او‘ پر عمل درآمد روکنے کا معاملہ جب سپریم کورٹ میں آیا تو اس ضمن میں سوئس اکاو¿نٹس کے معاملے کے بارے میں سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے اور اس میں نیب کی اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو استثنی حاصل ہے۔ اس لئے اس وقت تک ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی جب تک وہ عہدہ صدارت پر ہیں۔ سوئس حکام کو اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کے حوالے سے خط نہ لکھنے پر اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے الزام میں اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑا تھا۔ اگر کسی مقدمے میں کوئی نئے ثبوت سامنے آئیں تو اسی ادارے کو اس کی تحقیقات کا حق حاصل ہے جس نے پہلے اس مقدمے کی تحقیقات کی ہوں۔ انکوائری کمیشن کیسے ان معاملات کے بارے میں اپنی رائے قائم کرسکتا ہے جس کے بارے میں ان کا کوئی تعلق بھی نہ رہا ہو۔حکومت نے براڈ شیٹ‘ حدیبیہ پیپرملز‘ سرے محل اور سوئس بینک اکاو¿نٹس کی انکوائری کے لئے جس ایک فرد پر کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا ہے وہ جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ ہیں۔ جو جنوری دوہزاراُنیس میں سپریم کورٹ سے بطور جج ریٹائر ہوئے تھے۔ سال دوہزار میں جس وقت براڈ شیٹ اور نیب کے درمیان بیرونی ممالک میں سیاستدانوں کی جائیدادوں کا سراغ لگانے کے لئے معاہدہ ہوا تھا تو وہ اس وقت نیب میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل تھے۔ جسٹس عظمت سعید اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے تین نومبر دوہزارسات میں ملک میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کے دوران پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔ جسٹس عظمت سعید سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ بحال نہیں ہوئے تھے جسٹس عظمت سعید دوہزارگیارہ میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنائے گئے اور وہ ایک سال سے بھی کم عرصے تک اس منصب پر فائز رہنے کے بعد دوہزاربارہ میں سپریم کورٹ میں جج تعینات کئے گئے اور ستائیس اگست دوہزاراُنیس بطور جج سپریم کورٹ اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ وہ پاناما لیکس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے بینچ کا بھی حصہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ کی جانب سے اُن پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اُنہیں تحقیقات کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔