اگر سابق امریکی صدر ٹرمپ کو مواخذے کے مقدمہ میں سزا دینے کا انحصار ریپبلکن ارکانِ کانگریس کی حمایت پر ہے تو بظاہر انہوں نے دکھادیا ہے کہ ان کےلئے آئین، جمہوریت اور روایات کا پاس رکھنے کے بجائے اپنی پارٹی کے صدر ٹرمپ کی خوشنودی اہم تر چیز ہے۔ٹرمپ پر امریکی عوام کو بغاوت پر اکسانے کے الزام کے تحت مواخذے کا باقاعدہ مقدمہ تو 9 فروری کو شروع ہوگا جس میں دونوں طرف سے دلائل اور ثبوت دئیے جائیں گے۔ مگر ٹرمپ کا سینیٹ کی جانب سے مواخذہ کیے جانے کے امکانات کو تازہ ترین جھٹکا 26 جنوری کو لگا جب ان کی ریپبلکن پارٹی کے پینتالیس سینیٹرز نے مواخذہ کا مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی اسے ختم کرنے کی کوشش کردی۔ڈیموکریٹ پارٹی کے سینیٹ میں پچاس ارکان ہیں۔ ٹرمپ کو مواخذے کے مقدمے میں سزا دینے کےلئے انہیں مزید سترہ ریپبلکن ارکان کی حمایت درکار ہے۔ مگر وہاں ریپبلکن کے پچاس ارکان میں سے پینتالیس نے ٹرمپ کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کےلئے ووٹ دیا ہے۔اگرچہ پچاس ڈیموکریٹ اور پانچ ریپبلکن ارکان کی جانب سے مواخذہ جاری رکھنے کی حمایت سے یہ کوشش ناکام ہوگئی مگر اس کوشش سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ڈیموکریٹس کو سینیٹ میں ٹرمپ کو سزا کےلئے دوتہائی اکثریت یعنی 67 ارکان کا انتظام کرنا آسان نہیں ہوگا۔اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ صدر ٹرمپ نے ریاستوں میں عوامی ووٹوں کی گنتی اور تصدیق رکوانے، انتخابی کالج ارکان کی تقرری اپنی مرضی کے مطابق کروانے، انتخابی کالج کا اجلاس موخر کروانے اور پھر وہاں اپنی جیت یقینی بنانے، لوگوں کو امریکہ کے خلاف بغاوت پر اُکسانے، امریکی سینیٹ کو انتخابی کالج کے ووٹوں کی تصدیق بارے آئینی ذمہ داری سے روکنے اور پھر چھ جنوری کو نتائج کی تصدیق کے روز اپنے حامیوں کو کانگریس کی عمارت پر دھاوا بولنے پر اکسانے کی ناکام کوششیں کیں۔ یہ سب کام امریکی نظام اور آئین سے کھلم کھلا بغاوت تھے جن میں کسی پر ابھی تک صدر ٹرمپ نے اپنی ندامت کا اظہار کیا اور نہ معافی مانگی ہے لیکن ان کے باوجود ریپبلکن ارکان سینیٹ میں ٹرمپ کو پھر بچانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ٹرمپ صدارت سے فارغ ہونے کے بعد بھی پارٹی اور اس کے ارکان کانگریس پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں اور بہت کم ریپبلکن ارکان ان کی ناراضی مول لے کر اپنے سیاسی کیریئر کو داو¿ پر لگانے کےلئے آمادہ نظر آرہے ہیں۔اگرچہ مقدمے کی منسوخی کے حق میں ووٹ دالنے والے ریپبلکن ارکانِ سینیٹ میں سے چند ایک نے بعد میں کہا کہ وہ دونوں طرف کے دلائل اورشہادتیں دیکھ کر ٹرمپ کے مواخذے کی حمایت یا مخالفت کا حتمی فیصلہ کریں گے لیکن مبصرین کہہ رہے ہیں کہ ابھی تک کسی امریکی صدر کا سینیٹ میں مواخذہ نہیں ہوسکا اور ٹرمپ کے مواخذے کے امکانات بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔صدر جو بائیڈن نے بھی سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے خلاف مقدمہ یقینی طور پر چلنے لیکن انہیں سزا کے امکانات کم نظر آرہے ہیں۔ٹرمپ کےلئے اکثر ریپبلکن ارکان کانگریس کی حمایت عرصے سے جاری ہے۔ پچھلے سال فروری میں مٹ رومنی کے سوا سب ریپبلکن سینیٹروں نے مضبوط شہادتوں کے باوجود ٹرمپ کے مواخذے کے خلاف ووٹ دیا۔ پھر اکثر ریپبلکن انتخابات میں دھاندلی بارے بے بنیاد الزام تراشی کرنے اور نتائج تسلیم نہ کرنے میں ان کے ہمنوا بن گئے۔ پھر دو تہائی ہاو¿س ریپبلکنز نے پنسلوانیا کے انتخاب کنندگان کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس کے بعد 147 ریپبلکن ہاو¿س ارکان نے بائیڈن کی جیت کی تصدیق سے انکار کیا۔ پھر 205 ریپبلکن ہاو¿س ارکان نے اس قراداد کے خلاف ووٹ دیا جس میں امریکی نائب صدر مائیک پنس کو آئین کی دفعہ پچیس کے تحت صدر ٹرمپ کو عہدہ صدارت سے ہٹانے کا کہا گیا تھا۔ پھر 197 ریپبلکن ہاو¿س ارکان نے مواخذے کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا اور اب پانچ ارکان کے سوا سینیٹ میں سب ریپبلکن ارکان ٹرمپ کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کی سازش میں آلہ کار بنے ہیں۔ ریپبلکن ارکان یہ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ اگر سابق صدر ٹرمپ کا مواخذہ جاری رکھا جاتا ہے تو وہ سابق ڈیموکریٹ صدور کا بھی پھر مواخذہ کریں گے۔سب سینیٹرز مواخذہ کو غیر جانبداری اور انصاف کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق جاری رکھنے کا خاص حلف لیتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی ریپلکن ارکان کہہ رہے ہیں چونکہ ٹرمپ اب صدر نہیں رہے جبکہ آئین کے تحت صرف حاملِ عہدہ صدر کا مواخذہ ممکن ہے اس لیے ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کا مقدمہ غیر آئینی ہے اور اسے ختم کیا جائے۔اگر یہ نظریہ مان لیا جائے کہ سینیٹ کسی سابق صدر پر مقدمہ نہیں چلا سکتا تو یہ آنے والے ہر صدر کو اپنی مدت کے آخری دنوں میں ہر غلط کام کی کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہوگا۔ٹرمپ بے شک اب سابق صدر ہیں لیکن ان کا مواخذہ ایسی باتوں اور کاموں کی بنیاد پر ہو رہا ہے جو انہوں نے بحیثیت صدر امریکہ کیے ہیں اور یوں ان کا مواخذہ آئین کی روح کے مطابق ہے۔ اگر یہ مقدمہ ان کے سابق صدر ہونے کے باعث ختم کیا گیا تو آئندہ ہر بدنیت صدر اپنے آخری دنوں میں ہر قسم کی آئین شکنی دھڑلے سے کرے گا کیوں کہ اسے عہدے سے ہٹنے کے بعد کسی بازپرس اور مواخذے کا خطرہ ہی نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے 1876 میں امریکہ کے سیکرٹری جنگ ولیم بیلکنیپ نے ایوان نمائندگان میں بدعنوانی پر مواخذہ کیے جانے سے کچھ لمحے پہلے استعفٰی دیا مگر ایوان نمائندگان نے ان کا پھر بھی مواخذہ کردیا اگرچہ بعد میں سینیٹ میں وہ بری ہوگئے۔ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں جن کا ایوان نمائندگان میں دوبار اور اقتدار چھوڑنے کے بعد بھی مواخذہ کیا گیا ہے۔ٹرمپ ان ایوان نمائندگان اور سینیٹ ارکان سے سخت ناراض ہیں جنہوں نے ان کے خلاف ووٹ دیا۔ ان ارکان کو آئندہ انتخابات میں سزا دینے کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے اور ٹرمپ کے حامی انتہا پسندوں کی جانب سے ان پر حملوں کا بھی خطرہ بڑھ رہا ہے۔ ٹرمپ نے چند روز پیشتر ریپبلکن پارٹی کی جانب سے ان کی حمایت نہ کیے جانے کی صورت میں تیسری پارٹی بنانے کا عندیہ دیا مگر پھر تازہ حمایت ملنے کے بعد یہ اعلان واپس لے لیا۔ ٹرمپ مواخذہ کی خود اور اپنے ایلچیوں کے ذریعے سب ریپبلکن سینیٹروں سے رابطہ کرکے اپنی حمایت کا کہہ رہے ہیں۔ ایسے میں بظاہر ان کا سینیٹ میں مواخذہ کے امکانات ختم ہوتے جارہے ہیں۔