بارباڈوس کی آزادی۔۔۔۔

بحر اوقیانوس کے کنارے کیریبین خطے میں واقع ملک بارباڈوس نے برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم کو ریاستی سربراہ کے عہدے سے ہٹا کر مکمل طور پر ایک آزاد اور خودمختار جمہوری ملک بننے کا اعلان کردیا ہے۔ دراصل بارباڈوس نومبر 2021 میں برطانیہ سے آزادی کی 55 ویں سالگرہ کے موقع پر ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔اس حوالے سے لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی بارباڈوس کی 55سالہ وزیراعظم میا موٹلی کی جانب سے جاری کئے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بارباڈوس کے شہری ایک بارباڈوسی ریاستی سربراہ چاہتے ہیں۔وزیراعظم کا یہ بیان بارباڈوس کی گورنر جنرل سینڈرا میسن نے پارلیمنٹ سے اپنے سالانہ خطاب میں پڑھ کر سنایا ہے۔ گورنر جنرل سینڈرا میسن نے کہا کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے کے بعداب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے نوآبادیاتی ماضی کو پوری طرح پیچھے چھوڑ دیں۔انہوں نے کہاکہ باربیڈین قوم ایک باربیڈین ہیڈ آف سٹیٹ چاہتے ہیں۔ میسن نے کہا کہ بارباڈوس مکمل خودمختاری کی سمت اگلا منطقی قدم 30 نومبر 2021 کواس وقت اٹھائے گا جب ہم اپنی آزادی کی 55 ویں سالگرہ منائیں گے۔ دوسری جانب بکھنگم پیلس کی جانب سے بارباڈوس کی طرف سے سامنے آنے والے اس بیان کے ردعمل میں کہا گیاہے کہ یہ حکومت اور بارباڈوس کے عوام کا معاملہ ہے۔ بکھنگم پیلس کے ذرائع کاکہنا ہے کہ یہ خیال غیر متوقع اور اچانک نہیں ہے اور اس حوالے سے عوامی سطح پر متعدد مرتبہ بات چیت کی گئی ہے۔اصل میں یہ بیان پارلیمنٹ کے نئے سیشن کے آغاز پر کی گئی تقریر کا حصہ تھا جس میں حکومت کی پالیسیاں اور پروگرامز شامل ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ وزیر اعظم کی تقریر میں بارباڈوس کی آزادی کے بعد ملک کے پہلے وزیراعظم ایرو بیرول کی تنبیہ کو بھی شامل کیا گیاہے جنہوں نے کہا تھا کہ ملک کو نوآبادیاتی حدود میں موجود نہیں رہنا چاہئے۔اس کے علاوہ 1998 میں ایک آئینی جائزہ کمیشن نے بھی بادشاہت کے نظام سے علیحدہ ہونے اور ملک کو ایک آزادجمہوریہ کی حیثیت دینے کی تجویز دی تھی۔حکومت کے مقرر کردہ اس کمیشن نے 1998 میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ملکہ کو تبدیل کرکے بارباڈوس کو ایک نان ایگزیکٹو صدر کے ساتھ ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے جمہوریہ بننا چاہئے لیکن اس سفارش پراب تک عمل نہیں ہوسکاتھا۔خیال رہے کہ بارباڈوس کیریبین خطے میں سابق برطانوی کالونی سے علیحدہ ہونے والا پہلا ملک نہیں ہوگا۔1970 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے 4 سال سے کم عرصے میں گیانا نے یہ اقدام اٹھایا تھا، بعدازاں 1976 میں ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو جبکہ 1978 میں ڈومینیکن ریپبلک نے یہ اقدام اٹھایاتھا۔ یہاں اس امر کے متعلق بتانابھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ ملکہ الزبتھ برطانیہ اور 15 دیگر سابق برطانوی حکمرانی والے ممالک جن میں اینٹیگوا اور باربوڈہ‘آسٹریلیا‘بہاماس‘بارباڈوس‘ بیلیز، کینیڈا ‘ گریناڈا‘جمیکا‘نیوزی لینڈ‘پاپوا نیو گنی‘ سینٹ کٹس اور نیوس، سینٹ لوسیا، سینٹ ونسٹنٹ اور گریناڈائنز کی کالونیز شامل ہیں کی ریاستی سربراہ ہیں جہاں ان کی نمائندگی گورنر جنرل کرتے ہےں جن میں اکثریت مقامی باشندوں کی ہے۔رسمی عہدے کے باوجودملکہ الزبتھ کبھی کبھار بارباڈوس تشریف لاتی رہتی ہیں،ان کے دفتر کے رسمی کام گورنر جنرل کے ذریعے سرانجام د یئے جاتے ہیں۔البتہ اگراعلان کے مطابق بارباڈوس نومبر 2021 میں مکمل آذادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں یہ بات یقینی ہے کہ گورنرجنرل کا عہدہ جسے غلامی کی نشانی سمجھاجاتا ہے کوختم کر کے یہاں صدر کا آئینی عہدہ متعارف کرایاجائےگا۔یاد رہے کہ ماضی میں بارباڈوس کے مقامی باشندے متعدد بارملکہ برطانیہ کی آئینی حیثیت کو ترک کرنے پر زور دینے کے علاوہ جزیرے کے متعدد رہنماءبھی خودمختارجمہوریہ بننے کی وکالت کرتے رہے ہیں۔حالیہ اعلان کا خیرمقدم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈی اکے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پربھی زور شور اور خوشی کے ساتھ ہواہے،۔سوشل میڈیا کے کچھ صارفین نے اپنے تبصروں میں لکھاہے کہ ہمیں ملکہ کے مزید ساتھ کی ضرورت نہیں ہے آجکل بارباڈوس کاشمار شوگر انڈسٹری کے چند بڑے ممالک میں ہوتا ہے جس کا ملک کی معیشت میں بنیادی کردارہے۔ کرکٹ یہاں کا مشہور ترین کھیل ہے جس کااندازہ جہاں کرکٹ کی عالمی شہرت یافتہ ٹیم ویسٹ انڈیز میں بارباڈوس سے شامل ہونے والے کھلاڑیوں جن میںسر گارفیلڈ سوبرز، سر فرینک وورل، سر کلیڈ والکوٹ، سر ایورٹن ویکس، گورڈن گرینج، ویس ہال، چارلی گریفتھ، جوئیل گارنر، ڈیسمنڈ ہینز اور میلکم مارشل جیسے دنیائے کرکٹ کے نامور کھلاڑیوں کی موجودگی سے لگایاجاسکتا ہے وہاں 2007 میں یہاں عالمی کپ کاانعقاد بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ کرکٹ یہاں کا مقبول ترین کھیل ہے لہٰذا کرکٹ اور شوگر انڈسٹری دوایسے اہم شعبے ہیں جن کو بنیاد بناکر پاکستان بارباڈوس کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بناسکتا ہے۔