ایک میڈیارپورٹ کے مطابق نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے صدر ٹرمپ کے صدارت کے آخری ایام میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ طے پانے والے اربوں ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے منسوخ کردیئے ہیں ۔اطلاعات کے مطابق ان معاہدوں میں متحدہ عرب امارات کو 23ارب ڈالر مالیت کے ایف35جنگی طیاروں کی ڈیل بھی شامل ہے جو اسرائیل کی مخالفت کے باعث کافی عرصے سے تعطل کاشکار تھا لیکن بعدازاں جب متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرلئے تھے توتب اسرائیل کی رضامندی سے یو اے ای امریکہ سے یہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تھاجسے اب نئی جوبائیڈن انتظامیہ نے منسوخ کردیاہے جس کی تصدیق امریکی وزارت خارجہ نے بھی کر دی ہے شاید اسی طرح کے بعض دیگر ممکنہ فیصلوں کے تناظر ہی میں جو بائیڈن کے بطور امریکی صدر انتخاب کے بعدسیاسی تجزیہ کار ان خیالات کااظہار کرتے ہوئے پائے گئے تھے کہ نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کو مستقبل کے درپیش امتحانات میں سب سے کٹھن مسائل مشرق وسطیٰ سے متعلق امور میں پیش آ سکتے ہیں۔جوبائیڈن کے مستقبل کی ترجیحات اور اقدامات پر بحث کرتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ جو بائیڈن کی ٹیم کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو سابق ڈیموکریٹ صدر اوباما کی انتظامیہ میں شامل رہے ہیں۔ماہرین کاخیال ہے کہ یہ لوگ اب نئے احکامات کے ساتھ ان ہی دیرینہ مسائل کو دیکھیں گے جو ماضی میں ان کی ذمہ داریوں کا حصہ تھے۔کہاجاتا ہے کہ ان کا سب سے بڑا امتحان یہ ہو گا کہ انھیں اُن ہی پالیسیوں کو ٹھیک کرکے آگے بڑھنا ہو گا جو ان کی نگرانی میں سابق صدر باراک اوباما نے بنائی تھیںلیکن جو صدر ٹرمپ کے گزشتہ چار سالہ اقتدار کے دوران تعطل اور پیچیدگیوں کا شکار ہو گئی تھیں۔اس ضمن میں جوبائیڈن کو جوفوری چیلنج درپیش ہے وہ ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو کسی حد تک نارمل بنانا ہے ‘اسی طرح یمن میں جاری جنگ بھی نئی امریکی انتظامیہ کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے ۔یہ امر یقینی نظر آتا ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ یہ نہیں چاہے گی کہ وہ 2015ءمیں ہونے والا ایک ایسا معاہدہ نظراندازکردے جس کو بین الاقوامی سفارت کاری کی تاریخ میں ایک بڑی کامیابی قرار دیا جاتارہا ہے۔اکثر تجزیہ کار جوبائیڈن کی متوقع مشرق وسطیٰ پالیسی اور اس ضمن میں ان کی مجوزہ ترجیحات کو تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف قراردے رہے ہےں۔ دوسری جانب بعض حلقے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اکثر فیصلوں سے اختلافات کے باوجود ان کے ’ابراہیم ایکارڈ‘ کی تعریف بھی کررہے ہےں جس کے تحت پچھلے چند ماہ کے دوران کئی عرب ریاستوں بشمول متحدہ عرب امارات،بحرین،اومان ،سوڈان ،مراکش اور اسرائیل کے درمیان معمول کے سفارتی تعلقات استوار کئے گئے ہیں جس کے متعلق کچھ عرصہ پہلے تک سوچنا بھی محال تھالیکن اب نئے امریکی وزیر خارجہ بیلکن نے کہا ہے کہ وہ ان معاہدوں میں کئے گئے کچھ وعدوں پر نظر ثانی کریں گے جن میں متحدہ عرب امارات کو جدید ترین جنگی طیاروں اور اسلحے کی فروخت کے معاملے سے لے کر مراکش کی مغربی صحارا کے متازع علاقے پر خود مختاری کو تسلیم کرنے جیسے وعدے شامل ہیں۔ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قائممقام امریکی سفیر رچرڈ ملز نے کہا ہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی مشرق وسطیٰٰ سے متعلق پالیسی باہم متفقہ اور دو ریاستوں کے حل کی حمایت کرے گی، جس میں اسرائیل ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کے ساتھ سلامتی اور امن کے ساتھ قائم رہے گا۔رچرڈ ملز نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ فلسطینی امداد کی بحالی اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بند کئے گئے سفارتی مشنز کو دوبارہ کھولنے کے لئے اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ بائیڈن کی پالیسی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کے دو ریاستی حل کی حمایت پرمبنی ہے۔ ا±نہوں نے اشارہ کیا کہ واشنگٹن دوسرے ممالک سے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی تاکید کرتا رہے گا ۔ اس کے علاوہ عراق، لیبیا، شام اورلبنان کے حالات نیزفلسطین کے دوریاستی حل کے علاوہ وہ دیگر معاملات ہیں جن پر جوبائیڈن انتظامیہ کوتوجہ دیناہوگی۔