سکولوں میں ڈبل شفٹ۔۔۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے گزشتہ روز ایک اعلیٰ سطحی اجلا س سے خطاب کر تے ہوئے سکولوں میں ڈبل شفٹ کا نظا م جا ری کرنے کی ہدایت کی ہے اور اس سلسلے میںعملی اقدامات کا حکم دیا ہے ‘ڈبل شفٹ کا اگر آسان اردو میں ترجمہ کیا جا ئے تو اس کو دہری باری کہا جا ئےگا پہلی باری صبح 8بجے سے ایک بجے تک اور دوسری باری دو بجے سے لیکر 6بجے تک ہو گی ‘اگر پہلی باری میں سکول کے کمروں کیساتھ فرنیچر‘لیبارٹری اور لائبریری سے 600طلباءاستفادہ کرینگے تو دوسری باری میں 400طلباءان سہو لیات سے فائدہ اٹھا سکیں گے یو ں تعلیمی نظام میں بنیا دی ڈھا نچے کی سہو لیات کا زیا دہ سے زیا دہ فائدہ اٹھایا جائےگا اپنی نو عیت کے اعتبار سے ڈبل شفٹ شروع کرنے کا حکمنا مہ حکو مت کا انقلا بی قدم ہے اس کے دور رس اثرات مر تب ہونگے بیس لائن (Base line) سر وے کی رو سے صوبے کے شہری علاقوں میں 30فیصد اور دیہی علاقوں میں 40فیصد بچے سکول کی تعلیم سے محروم ہیں‘حکومت ہر سال زیا دہ سے زیا دہ بچوں کو سکولوں میں لانے کے لئے داخلہ مہم چلا تی ہے اور اس مہم کے نتیجے میں بچوں کی بڑی تعداد سکولوں کا رُخ کر تی ہے تا ہم یو نیور سل پرائمری ایجو کیشن کے اہداف اب بھی حا صل نہیں ہوئے ‘اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پا ئیدار ترقی SDGکے جو اہداف مقر کئے ہیں ان اہداف کی رو سے 2030تک ممبر ملکوں کو 100فیصد شرح خواندگی کا ہدف حا صل کر نا چاہئے سکو لوں میں ڈبل شفٹ کے آغا ز سے صوبے میں شرح خواندگی بڑھے گی اور پا ئیدار تر قی کے اہدف کی طرف پیش رفت میں خیبر پختونخوا دیگر صو بوں سے آگے نکلے گا‘ جن علاقوں میں سکولوں میں طلباءو طالبات کو داخلے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ڈبل شفٹ کے آغاز سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جائےگا اور سکولوں میں طلباءو طالبات کو داخلے میں حائل مشکلات کا خاتمہ ہو جائیگاحکومت کی طرف سے واضح اعلا نا ت کے بعد اب یہ محکمہ تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ اس پر وگرام پر عملدر آمد کے لئے درست طریقہ کار وضع کرے درست طریقہ کار کا دارومدار اس بات پر ہے کہ حکومت کے ذمہ دار حکام کتنے اختیارات پشاور میں رکھتے ہیں اور کتنے اختیار ات فیلڈ میں کا م کرنےوالے افسروںکو دیتے ہیں جس زمانے میں فیلڈ افسروںکو اختیارات حا صل تھے اُس زما نے میں ہیڈ ما سٹر اور پر نسپل اپنے علا قے میں مجسٹریٹ کے برا بر طاقت رکھتے تھے‘ پرائمری سکول کا استاد گاﺅں میں معتبرات سے زیا دہ رسوخ رکھتا تھا ‘گاﺅں کے لو گ استاد سے پو چھے بغیر کوئی کا م نہیں کر تے تھے اگر استاد ، ہیڈ ما سٹر اور پر نسپل کو اختیارات مل گئے تو ڈبل شفٹ کا نظام پہلے ہی سال کامیاب ہو جائیگا عملی زندگی میں اس کی مثا لیں مو جو د ہیں مثلاً استاد دوپہر کی شفٹ میں ایک پرائمری سکول کے اندر 40بچوں کو داخل کرنا چاہتا ہے اس کے لئے قواعد و ضوابط کا خیال رکھتا ہے تو اس کو آزادی ملنی چاہئے صو بائی دفتر سے رجو ع کرنےکی ضرورت نہیں ہو نی چا ہئے مثلا ً ہیڈ ماسٹر یا پر نسپل اپنے سکول کے 8اساتذہ کو دوپہر کی شفٹ میں ڈیو ٹی کیساتھ اعزا زیہ دینا چاہتا ہے تو اس کو اختیار ہو نا چاہئے مثلاً ہا ئی سکول یاہا ئیر سیکنڈری سکول کا سر براہ اساتذہ کی کمی کے پیش نظر فکسڈ معا وضے پر نئے اساتذہ لینا چاہتاہے تو اس کو مکمل اختیار حاصل ہو نا چاہئے مو جو دہ حا لا ت میں استاد ، پر نسپل اور ہیڈ ماسٹر قدم قدم پر پشاور کے دفتر سے منظوری لینے کے محتاج ہیں حد یہ ہے کہ سکول کا چو کیدار یا سکول کا ما لی ڈیو ٹی نہیں دیتا تو اس کی ایک مہینے کی تنخوا کا ٹنا یا اس کو ملا زمت سے برطرف کرنا یا اس کو 100کلو میٹر دور کسی دوسرے سکول میں تبدیل کرنے کی سفارش کرنا انچارج ٹیچر، ہیڈ ما سٹر اور پرنسپل کے اختیار میں نہیں ‘اختیارات کے بغیر استادیا ہیڈ ما سٹر ایک شفٹ مشکل سے چلا تا ہے وہ ڈبل شِفٹ کیسے چلائیگا ؟ اس سلسلے میں صوبائی حکومت نے ضرور ہوم ورک کیا ہوگا ، تحقیق کے نتیجے میں یہ بات بھی حکومت پر عیاں ہو چکی ہو گی کہ ڈبل شفٹ کو کا میاب کرنے کے لئے سکول کے اساتذہ ‘ سکول کے سر براہ اور مقا می کمیو نٹی کا با ہمی اشتراک ، با ہمی تعاون بہت ضروری ہے ‘ڈبل شفٹ کا نظام لا نے سے پہلے پی ٹی سی کے پلیٹ فارم کو فعال کردار سونپنا ہو گا ان شرائط کے ساتھ ڈبل شفٹ کا نظام لا یا گیا تو اس کی کامیابی میں کوئی شک نہیں رہے گی ۔ا