سینیٹ انتخابات آئندہ ماہ (مارچ) متوقع ہیں جس کیلئے سب سے زیادہ تیاریاں اور گرمجوشی ’تحریک انصاف کیمپ‘ میں دکھائی دے رہی ہے جہاں ایک بڑی کامیابی سمیٹنے اور قانون ساز ایوان بالا کی اکثریت جماعت بننے کیلئے تحریک انصاف پرعزم و پراُمید ہے لیکن اِس یقینی کامیابی کے باوجود بھی حزب اختلاف کی جماعتوں کی اہمیت برقرار رہے گی اور معمولی قانون سازی کیلئے بھی حکومت کو اتحادیوں یا حزب اختلاف کی جماعتوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ ایوان بالا کے اراکین کے انتخابات کیلئے حلقہ بندیاں تشکیل دینے والی قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر لگائے گئے محتاط اندازے اور ووٹ کے پیچیدہ نظام کو ذہن میں رکھیں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر تمام اراکین صوبائی اسمبلی انتخابات کے دوران اپنی اپنی پارٹی پالیسی پر سختی سے عمل کرتے ہوئے ووٹ دیں تو ایک معلق سینیٹ وجود میں آئے گی کیونکہ حکمران اور حزب اختلاف کے اتحادیوں کو تعداد میں ایک جتنی نشستیں حاصل ہونے کی توقع ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 104 اراکین کے سینیٹ ایوان میں سے پچاس فیصد یعنی 52 سینیٹرز گیارہ مارچ کو اپنے عہدوں کی چھ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد سبکدوش (ریٹائر) ہونے والے ہیں تاہم اس مرتبہ سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (جنہیں فاٹا کہا جاتا تھا) کے خیبرپختونخوا سے انضمام کے بعد وہاں کی چار نشستوں کیلئے انتخاب نہیں ہوگا لہٰذا 48 سینیٹرز کے انتخاب کیلئے پولنگ ہوگی جس میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے بارہ بارہ پنجاب اور سندھ سے گیارہ اور اسلام آباد سے دو سینیٹرز شامل ہوں گے۔ پولنگ جنرل نشستوں پر سات اراکین‘ چاروں صوبوں میں دو خواتین اور دو ٹیکنوکریٹس کے انتخاب کیلئے ہوگی۔ اس کے علاوہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ایک‘ ایک اقلیتی نشست پر بھی انتخاب ہوگا۔ جب اراکین صوبائی اسمبلی متعلقہ صوبوں سے سینیٹرز منتخب کریں گے قومی اسمبلی کے اراکین جنرل نشستوں پر اور اسلام آباد سے خاتون کی نشست پر سینیٹر کے انتخاب کے لئے بھی ووٹ ڈالا جائے گا۔تحریک انصاف سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کی بجائے ظاہری رائے شماری (اوپن ووٹ) کے ذریعے کروانے کیلئے صدارتی ریفرنس عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں دائر کرچکی ہے جبکہ پارلیمنٹ میں آئینی ترمیمی بل پیش کرنے کو تیار ہے اگرچہ سپریم کورٹ نے ابھی مذکورہ ریفرنس پر فیصلہ نہیں دیا تاہم حزب اختلاف کی جماعتیں پہلے ہی اعلان کرچکی ہیں کہ وہ ایسے وقت میں جب اِنتخابات صرف ایک ماہ دور ہیں حکومت کی طرف سے اس طرح کے کسی قدم کی حمایت نہیں کرے گی تاہم سینیٹ انتخابات کے لئے جو بھی طریقہ اپنایا جاتا ہے تمام اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر حساب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر تمام قانون ساز اپنی متعلقہ پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دیتے ہیں تو حکمران تحریک انصاف کو اکیس نشستیں ملنے کا امکان ہے‘ جس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کو چھ چھ اور نواز لیگ کو پانچ نشستیں مل سکتی ہیں۔ یوں تحریک انصاف مارچ میں وجود پانے والی سینیٹ میں اٹھائیس سینیٹرز کے ساتھ اکیلی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی جس کے بعد دوسرے نمبر پر اُنیس نشستوں کے ساتھ پیپلزپارٹی‘ سترہ اراکین کے ساتھ نواز لیگ اور تیرہ سینیٹرز کے بلوچستان عوامی پارٹی ہوگی تاہم تحریک انصاف کی حاصل کردہ نشستوں کی تعداد مختلف بھی ہوسکتی ہے کیونکہ پارٹی مختلف صوبوں میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ بھی کر رہی ہے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت اِس بات کیلئے رضامند ہے کہ وہ مسلم لیگ (قائداعظم) کو پنجاب سے ایک یا دو سینیٹرز دے۔ اگر یہ معاہدہ حتمی شکل اختیار کرلیتا ہے تو مسلم لیگ (قائداعظم) چھ سال بعد ایک مرتبہ پھر سینیٹ میں نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ خیبرپختونخوا سے تحریک انصاف کو توقع ہے کہ صوبائی اسمبلی میں واضح اکثریت کے باعث اِسے دس سے بارہ نشستیں باآسانی حاصل ہو جائیں گی۔ باقی ماندہ دو نشستیں حزب اِختلاف (جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن اور عوامی نیشنل پارٹی) کے حصے میں آئے گئی۔ ستارہ ایاز گیارہ مارچ کو ریٹائر ہو رہی ہیں۔ پنجاب سے تحریک انصاف کو چار جنرل اور 6 دیگر نشستیں مل سکتی ہیں جبکہ نواز لیگ بھی پراُمید ہے کہ اُسے پنجاب سے اپنے سینیٹرز منتخب کروانے میں کامیابی ملے گی لیکن سینیٹ انتخابات کے نتائج حزب اختلاف کی جماعتوں کے لئے مختلف (اُمیدوں کے برعکس) ہو سکتے ہیں کیونکہ تحریک انصاف شفاف اور حسب حقیقی نمائندگی نشستوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اُمید ہے کہ سینیٹ انتخابات کا مرحلہ خوش اسلوبی کے ساتھ اور بنا کسی اختلاف کو جنم دیئے مکمل ہو جائے گا کیونکہ پہلے ہی سیاسی اختلافات اور ملک میں انتخابات کی تاریخ کافی متنازعہ ہے اور (اُمید یہ بھی ہے کہ) اِس متنازعہ سیاسی و انتخابی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ نہیں ہوگا۔