2017 میں شروع ہونے والے 2600 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ اب تک 85 فیصد باڑ لگائی جا چکی ہے اور بقیہ کام اگلے چند مہینوں میں مکمل ہو جائے گا۔اس باڑ پر اخراجات کا تخمینہ 532 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ سرحد پر لگائی جانے والی باڑ پاکستان کی جانب سے گیارہ فٹ جبکہ افغانستان کی جانب تیرہ فٹ اونچی ہے۔ دونوں باڑوں کے درمیان خار دار تاروں کا جال بچھایا گیا ہے۔ ایک ہزار کے قریب چھوٹے بڑے قلعے بھی بنائے جارہے ہیں جن میں فوجی جوان تعینات ہونگے جنہیں سرحد کی مستقل نگرانی کیلئے جدید الیکٹرانک نظام، کلوز سرکٹ کیمرے اور ڈرونز کیمروں کی مدد مہیا ہوگی۔صوبہ خیبرپختونخوا سے افغانستان کی تقریباً 1400 کلومیٹر، بلوچستان سے تقریباً 1200 کلومیٹر اور گلگت بلتستان سے تقریباً ایک سو کلومیٹر سرحد ملتی ہے۔ یہ اکثر انتہائی دشوار گزار اور چٹیل پہاڑی علاقوں سے گزرتی ہے۔افغانستان کی حکومت کی مخالفت، دشوار گزار مقامات، سخت موسم اور دہشت گردوں کی جانب سے حملوں کے علی الرغم یہ باڑ لگانا کوئی آسان کام نہیں تھا مگر سخت مشکلات اور کئی اہلکاروں کی شہادت کے بعد باالآخر پاکستان باڑ لگاکر اپنی مغربی سرحد کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔اس باڑ کے کئی فائدے ہیں۔ اس سے دہشت گردوں کی سرحد پار کاروائیاں دونوں طرف ناممکن یا انتہاء مشکل ہوجائیں گی، غیرقانونی تجارت اور منشیات کی سمگلنگ ختم یا کم ہوجائے گی اور عوام کی آمدورفت اور اشیاء کی ترسیل باقاعدہ ہوجائے گی۔ مگر ان سب فائدوں کے باوجود بھی حیران کن طور پر افغانستان اس باڑ کے خلاف ہے اور اسے غیرقانونی کہتا آیا ہے۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ستر ہزار سے زیادہ شہادتیں دیں، اس کی معیشت کو سو ارب ڈالر کا نقصان بھی ہوا اور بڑے عرصے سے پاکستان مخالف دہشتگرد تنظیمیں افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے بھارت کی حمایت سے بھارت پاکستان میں حملے کررہی ہیں مگر اس کے باوجود بھی افغانستان کی جانب سے اس پر دراندازی کو کنٹرول نہ کرنے کے الزامات کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ایسے میں پاکستان کے پاس واحد راستہ یہ رہ گیا تھا کہ وہ اپنی طرف باڑ لگا کر ہر قسم کی غیرقانونی آمد و رفت کے امکانات کا سدباب کردے۔ کیونکہ اس کے خیال میں اس کے بعد پاکستان پر یہ الزام لگانا ممکن نہیں رہے گا کہ یہاں سے افغانستان میں در اندازی ہوتی ہے یا پاکستان سرحد پار دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کیلئے کچھ نہیں کررہا۔افغانستان دراصل 1893 میں سر مورٹیمر ڈیورنڈ کی سرکردگی میں قائم کمیشن کے ذریعے کھینچی گئی برطانوی ہند اور افغانستان کی سرحد (ڈیورنڈ لائن) کو نہیں مانتا باوجود یہ کہ اس وقت کی افغان حکمران نے بھی اسے قبول کیا اور بعد میں تین معاہدوں (1905ء1919,ء 1921ء) میں دیگر افغان حکومتوں نے بھی اسے قبول کیا۔ لیکن افغانستان نے آج تک سابق روسی ریاستوں سے ملنے والی اپنے سرحدوں، جن کا تعین برطانیہ اور روس نے افغان حکومت کو باہر رکھ کر کیا، اور ایران سے متصل سرحد، جس کا تعین برطانیہ اور ایران نے افغان حکومت سے پوچھے بغیر کیا، کو کبھی مسترد نہیں کیا۔ افغان کہتے ہیں کہ برطانوی ہند کی جانب سے متعین کیاگیا ڈیورنڈ لائن برطانوی ہند کے ختم ہونے کے بعد ختم ہوگیا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ انہیں اسی برطانیہ کی جانب سے متعین شدہ افغانستان کی سوویت یونین کی جانشین وسطی ایشیائی ریاستوں سے متصل شمالی سرحدیں اور ایران سے ملنے والی سرحد کیوں قبول ہیں؟ افغانستان کہتا ہے کہ اس سے پختون تقسیم ہوجائیں گے۔ لیکن ایک تو ہر ملک کو اپنے حدود کے اندر اپنی پالیسی بنانے کا حق حاصل ہے اور پھر ایک ہی نسل، زبان، ثقافت اور مذہب کے لوگوں کا ایک ملک میں رہنا ضروری بھی نہیں اور وہ مختلف ملکوں میں رہ کر بھی اپنے تعلقات قائم رکھ سکتے ہیں۔اگر افغان حکومت اپنی طرف پاکستان جیسی سینکڑوں سرحدی نگرانی چوکیاں تعمیر کرنے، پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی واپسی، پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب اور ویزے کے ساتھ آمد و رفت جیسے امور کی مخالفت کرتی آرہی ہے تو اس کا سادہ مطلب تو پھر یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اگر افغان پناہ گزین سارے پاکستان سے نکل جائیں، سرحد پر باڑ لگائی جائے اور پاک افغان سرحد پر آمدورفت باقاعدہ ہو جائے تو پھر پاکستان پر درندازی اور یوں اپنی ناکامی کا الزام اس کے سر تھوپنے کا موقع اس کے پاس نہیں رہے گا۔پاکستان کی ریاستی عملداری اب تقریباً پورے پاک افغان سرحدی علاقے پر قائم ہوگئی ہے۔ یہاں سے افغانستان میں مداخلت اور دراندازی اب ممکن نہیں رہی اور پاکستان جانتا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان مین امن اور وہاں بدامنی یہاں بدامنی پر منتج ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی بساط بھر وہاں امن لانے میں مدد دے رہا ہے۔ لیکن افغانستان یاد رکھے کہ اگر پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ہے اور اس کے ساتھ تقریباً 2600 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد رکھتا ہے تو اس میں اِس کا کوئی قصور نہیں۔ آپ پاکستان پر الزام تراشیاں کرنے کے بجائے افغان پناہ گزینوں کو واپس لے لیں افغانستان کی طرف سرحدی نگرانی کو یقینی بنانے کیلئے چوکیوں کی تعداد بڑھا دیں تاکہ اگر کہیں دہشت گرد دراندازی میں کامیاب ہوں تو آپ ان کو فوراً گرفتارکرسکیں اور اپنے انٹیلی جنس نظام کو بھی مضبوط کریں تاکہ اگر وہ سرحد پر گرفتاری سے بچ نکلیں تو آپ ملک میں ان کیلئے نقل وحمل ناممکن ہو۔ ظاہر ہے پاکستان بالکل بھی افغانستان کی سلامتی کا ذمہ دار نہیں ہے۔ افغانستان ایک الگ ملک ہے، اس کی اپنی ایک حکومت ہے اور وہاں بین الاقوامی فوج تعینات ہے جو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں زیادہ بہتر طریقے سے ادا کر سکتی ہیں جبکہ ہم اس سلسلے میں اب تک اپنی استطاعت سے بھی زیادہ کام کرچکے ہیں۔ یہ بے انصافی ہے کہ افغانستان اپنی ناکامی اور نااہلی کا الزام پاکستان جے سر تھوپتا پھرے۔ افغانستان کو چاہئے کہ اس طویل سرحد پر باڑ لگائے، اپنی طرف سرحدی نگرانی کا موثر نظام قائم کرے اور اپنے ملک میں پاکستان مخالف دہشت گردوں کی حمایت نہ صرف خود ترک کرے بلکہ بھارت کو بھی دہشت گردوں کی پشت پناہی سے روک دے اور یوں خطے میں امن کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔