یہ راستہ کہاں جاتا ہے


 اس نے مجھ سے پوچھا یہ راستہ کہاں جاتا ہے۔میں نے جواب دیا راستے کہیں نہیں جاتے۔ آپ کو کہا ں جانا ہے۔وہ گویا ہوا میں نے گھوڑوں کی ڈگی کی طرف جانا ہے وہ گلی ہے کہ گنج کے درمیان میں سے نکل کر وہاں دوسرے کنارے پر گھوڑوں کی ڈگی کے پاس بندہ پہنچ جاتا ہے۔ جہاں سے تانگے والے اپنے گھوڑوں کو پانی پلاتے تھے۔ شہر کا مشہور مقام ہے۔ کسی کو یہاں آس پاس کا پتا دکھلاناہوتو یہی کہتے ہیں گھوڑوں کی ڈگی کے پاس فلاں کا گھر ہے۔مجھے اچانک احساس ہو اکہ او ہو معاملہ تو کچھ اور ہے مگر اس وقت قابلِ غور نہیں۔میں تو پھنس چکا ہوں۔ آس پاس کوئی نہ تھا جو میری مدد کے لئے آتا۔ اب کیا ہوگا۔ میں نے کہاسامنے جاؤ ڈگی وہاں ہے۔میں آگے چلنے لگا تو اس نے میری پیٹھ میں کچھ چبھو کر کہا جو ہے نکالو۔ سوچاچپ کر کے جو ہے ا س کے ہاتھ پر رکھ دوں۔ مگر جیب میں تھا ہی کیا جو اس کے ہاتھ پر رکھتا۔رات کا وقت ویسے ہی واک کو نکلا تھا۔پھر قسمت کی خرابی سے اس گلی میں جا نکلا۔ کوئی چوراچکاتھا۔یہ برسوں پہلے کی بات ہے۔گرمیوں کے دن تھے پتلی ململ کی سفید گلاٹی والی قمیض پہن کر آیاتھا۔جس کی ایک ہی جیب تھی جو دائیں پسلی کے ساتھ تھی۔گریبان کھلا تھا۔ اس بیوقوف نے واردات کیلئے انتخاب بھی کیاتو کس کنگال کا کیا۔ جیب میں چابیاں تھیں۔منڈی بیری سے گنج اور پھرتحصیل او روہاں سے بڑے بازار اور پھر کالے کی کھوئی کی راہ سے گھر آناتھا۔ کہیں جانا تو نہ تھا کہ جیب میں کچھ نہ کچھ اٹھا لیتے۔ بس آکر بستر پر دراز ہوناتھا۔پھر لا ابالی پن اور بے فکری بھی تو تھی۔والد فرمایا کرتے تھے کہ الو رات کو جلدی گھر آیا کرو۔ مگراس عمر میں کان پڑی آواز کہا ں سنائی دیتی ہے۔کانوں کو لگ جائے مگر دل کو کہاں لگتی ہے۔اس وقت موبائل جیسی اہم ترین چیز اور ضروری ترین شئے نے لوگوں کے دل و دماغ میں اتناگھر نہیں کیاتھا۔ پھر نہ تو یہ آج کی طرح مقبول تھی۔ پھر نہ آدمی کی مجبوری تھی۔ میں نے موبائل ساتھ اٹھا لیاتھا کہ کراچی سے کال آناتھی۔مگر یاد نہیں تھا کہ موبائل جیب میں ہے۔ تین ہزار روپے والا موبائل۔ان دنوں یہی سارے شہر کے پاس تھا۔ میں نے اس شریف بدمعاش سے کہا میری جیب میں کچھ نہیں غریب آدمی ہوں۔ا س کے پاس شاید چاقو تھا یا پستول تھا یا پھر اس نے اپنی انگلی کو پستول بنا کر میری کمر میں گاڑھ دیاتھا۔ اب یہ نہ تو غور فرمانے کاموقع تھا اورنہ ہی تحقیق کی گھڑی تھی۔ بس یہی دو پل تھے جس میں یا تو میں نے کچھ کرناتھایااس نے کچھ نہ کچھ کردینا تھا۔مگر بڑوں سے اس موقع کی نشانیاں او رہدایات سن رکھی تھیں۔ یہ تھیں کہ جان سے اچھا کچھ نہیں جو ہو دے دو اور جان چھڑاؤ۔کیونکہ ان دنوں اس طرح کی بہت وارداتیں ہو رہی تھیں۔کتنے ہی جوان جہان اور شہ زور ماں باپ کے ایک ہی فرزند اس قسم کی وارداتوں کے دوران میں جوابی کاروائی کرنے پر چور کے پستو ل سے نکلی گولی کا نشانہ بن چکے تھے۔اس نے آگے بڑھ کر میری جیب میں خود ہاتھ ڈالااور اس اندھیرے میں پتانہیں کیا نکال لیا۔وہ اتنے میں برسات کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتا ہوانو دو گیارہ ہو گیا۔کیونکہ گھوڑوں کی ڈگی والے کونے پر ایک آدمی اندر آتا ہوانمودار ہوا تھا۔جیب میں دیکھاتو چابیوں کا گچھا موجودتھا۔پھریادآیاکہ وہ تو موبائل لے گیاہے۔اگر اب تک اس کے پاس پڑا ہو تو بیکار کی چیز ہے۔مگر ان دنوں یہ مہنگا بھی تھا ہر چند کام کی چیز نہ تھا۔وارداتوں کا کیا ہے پورے ملک میں ہور ہی ہیں۔اگر تھانے میں رپورٹ نہیں ہوتیں توکیا ہوا۔ پھر شہر کی کسی بھی جگہ کسی کے ساتھ اوپن ایئر میں رات تو کیا دن کو بھی اس طرح کی یااس سے زیادہ انہونی ہوسکتی ہے۔پھر اس واقعہ کے بعد رات کو جلدی گھر آناشروع کر دیا۔کیونکہ جیب سے کچھ برآمدنہ ہو تب بھی مار ڈالتے ہیں کہ تمھاری اس زندگی سے موت اچھی ہے۔والد کو واقعہ کاتو علم تھا۔چندروزبعد کہا رات کو جلدی کیوں آ رہے ہو۔ میں نے کہا باہر کا ماحول ٹھیک نہیں ہے۔فرمایا میں کہتا تھا نہیں مانتے تھے اب جا کر سبق سیکھا ہے۔