یہ سب دیکھ کر دل بہت دکھتا ہے ۔مگر غور کیا جائے تو یہ بھولنا بھی ایک نعمت سے کم نہیں ۔ورنہ اگر یہ چیز نہ ہوتی تو انسان کا زندگی گذارنا بہت مشکل ہو جاتا۔اگر انسان کے ساتھ کوئی حادثہ ہو جائے اور وہ اسے نہ بھول سکے وہ آسانی سے ڈیپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ہاں مگر کسی کی نیکی کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔اسی کا نام زندگی ہے۔ یہاں ریورس نہیں ہے ۔بس آگے جانا ہے ۔جو پیچھے رہ گیا سو رہ گیا۔کسی حادثے کے بعد اس کڑوی یاد کو دل میں لے کر بیٹھ جانا درست نہیں۔ وہی یاد روز آتی رہے اور دل دکھاتی رہے بندہ بھول نہ پائے ۔ وہ اس موقع پر ذہنی دبا¶ کا شکارہو کر مستقل طور پرنہ ختم ہونے والی ذہنی بیماری کی سی کیفیت کاشکار ہو جاتا ہے۔بعض اوقات کسی دل خراش واقعہ کی یاد کو دل سے بھلانا بہت مشکل ہو تا ہے۔تا زندگی بندہ اسی ایک واقعہ کو یاد کر کے پریشان رہتا ہے۔اسے چپ سی لگ جاتی ہے ۔یہ تلخ یاداس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے ۔وہ اس میں گھِر کر کہیں نہیں رہتا ۔بلکہ وہ حادثہ اس کی زندگی کو بناتا ہے اس کی شخصیت کو سنوارتابھی ہے ۔ اس کا نام زندگی ہے ۔:یہ تو تقدیر کے کھیل ہیں ۔کائنات ایک حکمت اور ایک سمجھ کے ساتھ چلائی جا رہی ہے۔کوئی بچہ اگر والد کی وفات کا حادثہ نہ بھلا پائے ایسا تو ہو نہیں سکتا ۔مگر کوئی واقعہ اس کے دل و دماغ پر نقش ہو جائے ۔جس کے اس کے ذہنی دبا¶ میں اضافہ ہو جائے تو اس سے اس کی شخصیت بگڑ سکتی ہے ۔ پھریہ شعر یاد آتا ہے کہ ” یادِ ماضی عذاب ہے یا رب ۔چھین لے مجھ سے حافظہ میرا“۔یا پھرمیر کا وہ شعر ” یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ۔ نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا“۔اگر وہ یاد بھول نہ پائے تو عذاب بن جاتی ہے ۔لہٰذا اگر کوئی حادثہ کے بعد اس پرکشش زندگی میں کھو جاتا ہے تو یہ اس کی صحت اور ذہنی حالت کےلئے بہت بہتر ہے ۔یہی ہے پیارے زندگی ۔ کبھی ہے غم اور کبھی خوشی۔ زندگی میں خوشی اور غم دونوں برابر مقدار میں ایک گلاس میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ یا یوں کہئے کہ زندگی کاگلاس آدھا خالی اور آدھا بھرا ہواہے ۔آدھی خوشیاں ہیں اور آدھی غم کی حالت ہے ۔ پرامید انسان وہی ہوگا جس کی نظر اس آدھے بھرے گلاس کے پانی پر ہوگی۔ویسے آج کل نارمل زندگی گذارنا بہت مشکل ہو چلا ہے ۔اس دور میں اور اس معاشرے میں جہاں ہر طرف ایک افراتفری کاعالم ہے ۔وہاں ایک بندہ کہاں خوش رہ سکتا ہے۔میڈیسن سٹور پر ذہنی سکون کی دوا لینے جا¶ تو جواب ملتاہے کہ شارٹ ہے۔ مارکیٹ میں موجود نہیں ہے۔کیونکہ وہ دوا اچھی ہوتی ہے اور دھڑا دھڑ فروخت ہو رہی ہوتی ہے ۔ سو ہول سیل والے دکاندار اس کو دوبارہ مارکیٹ میں بھیجنے سے پہلے مہنگا کر دیتے ہیں۔کیونکہ وہ دوسری اس قسم کی سکون والی دوا¶ں کی بہ نسبت سستی ہوتی ہے۔سٹور والے کہتے ہیںوہ نہیں فلاں دوا لے جائیں۔یہ تو لٹمس ٹیسٹ ہے ۔ٹیسٹ ہمارے معاشرے کی خوشحالی کا ۔اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ بہت پریشانی کا دور جا رہا ہے ۔روپے پیسے کی کمی کی وجہ سے ٹیکس پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے دکاندار ٹیکس کی رقم کی ادائیگی کی خاطر اسی قیمت کی دوا ہو یا کچھ اور اس کو اندر سے کم کر دیتے ہیں۔ باہر سے ٹیوب سوجھی ہوئی اور مکمل لگے گی مگراندر گلے گلے خالی بوتل یا ٹیوب ہوتی ہے۔آپ صرف ٹوتھ پیسٹ لیں باہر سے سائز بھی وہی اور قیمت میں بھی اضافہ ہوگا مگر اس کے اندر محلول کم ہوگا۔یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اندر سے اسی طرح کھوکھلا ہو چکاہے ۔باہر سے کچھ نظر آتا ہے اور اندر سے کچھ اور ہے ۔یہ سب کرشمہ سازیاں عام انسان کی قوتِ خرید میں کمی سے ہیں ۔ایسے میں کسی حادثے کی یادکو یوں بھی تو لوگ ایک سکون کی گولی کھاکر بھلائے بیٹھے ہیں۔